Maktaba Wahhabi

93 - 242
لاش کی بہرحال بے حرمتی اور توہین پائی جاتی ہے۔ رہی میڈیکل کے طلباء اور طلبات کی طبی ضرورت تو وہ غیر مسلم کی لاشوں پر تجربات اور تحقیق کر سکتے ہیں ۔ میت کا غسل واجب ہے: میت کے غسل کے وجوب پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں ۔ دو احادیث زیب قرطاس کی جاتی ہیں : ((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللّٰہ عنہ بَیْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِعَرَفَۃَ اِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِہٖ..... قَالَ اِغْسِلُوْہُ بِمَائٍ وَسِدْرٍ))[1] ’’عرفہ کے میدان میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ وہ اپنی اونٹنی سے گرپڑا اور اونٹنی کی دولتی سے فوت ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ اس کو غسل دو۔‘‘ ((عَنْ اُمِّ عَطِیِّۃِ رضی اللّٰہ عنہا قَالَتْ دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَنَحْنُ نَغْسِلُ اِبْنَتَہٗ فَقَالَ اِغْسِلْنَھَا ثَلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ اَکْثَرَ مِنْ ذَالِکَ))[2] ’’سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم آپ کی لخت جگر (زینب رضی اللہ عنہا ) کو غسل دے رہی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ دفعہ حسب ضرورت غسل دینا۔‘‘ غسل کا طریقہ: امام عبدالرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میت کو غسل دینے کا ارادہ کریں تو اس کے کپڑے اتار دیں مگربدن کا جتنا حصہ زندگی کی حالت میں چھپانا ضروری ہے اس کو بے ستر نہ کریں ۔ پھر ہاتھ کے اوپر کپڑا لپیٹ کر اس کو استنجا کرائیں اور بدن پر جہاں کہیں نجاست ہو تو اس کو بھی پاک کریں ، وضو کرائیں اور سر اور داڑھی میں بال ہوں تو خطمی
Flag Counter