Maktaba Wahhabi

215 - 242
مقرر عبادت اور حاجتوں کا مانگنا اور مدد چاہنی حق اللہ وحدہٗ لا شریک کا ہے۔‘‘[1] سوال:..... ’’از انبیاء کرام علیہم السلام و اولیاء کرام و شہداء و صلحاء عالی مقام بعد موت شاں استمداد بایں طور کہ یا فلاں از حق تبارک و تعالیٰ حاجت مرا بخواہ و شفیع من بشو و دعاء من بخواہ، درست است۔‘‘ ’’یا نہ کہ انبیاء علیہم السلام اولیاء کرام، شہداء اسلام اور صلحاء عالی مقام کی موت کے بعد ان سے بایں طور مدد طلب کرنا کہ اے فلاں اللہ تعالیٰ سے میری حاجت طلب کر اور میرا سفارشی بن کر میری دعا طلب کر، کہنا درست ہے یا نہیں ؟‘‘ جواب:..... شاہ عبدالعزیز دہلوی استمداد از اموات خواہ نزدیک قبور باشد یا غائبانہ بے شبہ بدعت است در زمان صحابہ و تابعین نبود۔‘‘[2] ’’مردوں سے مدد چاہنا خواہ ان کی قبروں کے نزدیک سے یا دُور سے بلاشبہ خلاف سنت ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے دَور میں اس بدعت کا رواج نہ تھا۔‘‘ شرکِ جلی: اگرچہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے اس فتویٰ استمداد از اموات کو شرک کی بجائے خلافِ سنت لکھا ہے تاہم انہوں نے درج ذیل فتویٰ میں اس کو شرک جلی قرار دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں : ’’در باب استعانت بارواح طیبہ دریں امت افراط بسیار بوقوع آمدہ آنچہ جہال و عوام اینہامی کنند و ایشاں را در ہر عمل مستقل دانستہ اند، بلاشبہ شرک جلی است۔‘‘[3] ’’ارواح طیبہ سے مدد مانگنا اس امت میں عام ہو گیا ہے۔ جہلاء اور عوام بزرگوں کی روحوں کو ہر عمل میں مختار مانتے ہیں ، سو واضح ہو کہ یہ عقیدہ بلاشبہ شرک
Flag Counter