Maktaba Wahhabi

49 - 242
ایسی کوئی طبی ضرورت واقعی موجود نہیں ہے۔ پھر بھی اصولی طور پر ایسی ضرورت کو ہم احتیاطاً تسلیم کر لیتے ہیں ، کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان کسی ایسی جگہ ہو جہاں اسے محرمات کے سوا کوئی دوسری چیز نہ مل سکے۔ (حلال و حرام ص: ۶۶ و ۶۷) ان دونوں آراء پر تبصرہ: جب نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تصریح فرما دی ہے، کہ حرام چیزوں میں شفاء ہے ہی نہیں ، تو پھر ان کے ساتھ شفاء کی توقع کیسی اور علاج کی مجبوری کیسی؟ چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اَلْعِلَاجُ بِالْحَرَامِ حَرَامٌ عِنْدَ جَمَاھِیْرِ الْاَئِمَّۃِ کَمَالِکَ وَاَحْمَدَ اِمَامٌ‘‘ ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ایک قول کے مطابق شوافع نے حرام چیزوں کے ساتھ علاج حرام قرار دیا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس مسئلہ پر بڑی نفیس علمی بحث کی ہے، جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ حرام چیزوں کے ساتھ علاج کرنا نہ صرف شرعا حرام ہے بلکہ عقلا بھی ان کا استعمال کرنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔[1] مریض کو خون دینا: علاج کی مجبوری کے پیش نظر ایسے مریض کو خون چڑھانا جس کی زندگی خطرہ میں ہو جائز ہے یا نہیں اس کے بارے میں علماء اہل حدیث کے دو قول ہیں ، بعض علماء علاج کی مجبوری کا اعتبارنہیں کرتے اور وہ حسب ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میری اُمت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب جنت میں جائیں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دریافت کرنے پر فرمایا: ((فَقَالَ ہَمَ الَّذِیْنَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یُسْترقون ولا یکتوون وعلی ربہم یتوکلوم))[2]
Flag Counter