Maktaba Wahhabi

174 - 242
قرآن شریف تقسیم کر دئیے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے میت کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔ لیکن بقول علماء حنفیہ رسم اسقاط شریعت کے خلاف ہے۔ مفتی کفایت اللہ حنفی کا فتویٰ: اوپر کے تمام بیان سے ثابت ہوا کہ اسقاط کا یہ طریقہ جو رسم نمبر ۵ میں بیان کیا گیا ہے کہ ساڑھے بارہ سیر گیہوں اور ایک قرآن مجید تمام فرائض و واجبات کے فدیہ میں دیتے ہیں ، بے اصل اور ناجائز ہے، بے اصل ہونا تو اس لیے کہ اس خاص مقدار کے تمام فرائض و واجبات کی طرف سے کافی ہو جانے کے کوئی دلیل نہیں ہے اور ناجائز ہونا اس لیے کہ اس میں ساڑھے بارہ سیر کی تعیین ثابت نہیں ہے۔ اسقاط کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بعض مقامات سے لوگ کچھ غلہ فقیر کو یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ میت کے ذمہ جو گناہ تھے وہ تم نے اپنے اوپر لے لیے اور جاہل فقیر کہتا ہے کہ لے لیے اور وہ غلہ اس کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ صورت تمام صورتوں سے بدتر ہے اور اس میں ڈر ہے کہ دینے والے اور لینے والوں کا ایمان ہی جاتا رہے کیونکہ یہ ﴿لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ ’’کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔‘‘ کے خلاف ہے۔[1] در مختار اور رد المختار میں ہے: ((وَ لَوْ قَضَاہَا وَرَثَۃٌ بِاَمْرِہٖ لَمْ یَجُزْ لِاَنَّہَا عِبَادَۃٌ بَدَنِیَّۃٌ بِخِلَافِ الْحَجِّ لِاَنَّہٗ یَقْبَلُ النِّیَابَۃَ وَ فِیْہِ اَیْضًا وَ لَا فَدٰی عَنْ سَلَامَۃٍ فِیْ مَرَضِہٖ لَا یَصِحُّ بِخِلَافِ الصَّوْمِ وَ فِیْہِ اَیْضًا وَ لَوْ فَدٰی عَنْ صَلَاتِہٖ فِیْ مَرَضِہٖ لَا یَصِحُّ بِخِلَافِ الصَّوْمِ اِنَّ الصَّلٰوۃَ لَا تَسْقُطُ عَنِ الْمَیِّتِ بِذٰلِکَ وَ کَذَا الصَّوْمُ لَوْ صَامَ اَوْ صَلّٰی وَ جَعَلَ ثَوَابَ ذٰلِکَ لِلْمَیِّتِ صَحَّ لِاَنَّہٗ یَصِحُّ اَنْ یَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِہٖ لِغَیْرِہٖ عِنْدَنَا قَوْلُہٗ))[2]
Flag Counter