Maktaba Wahhabi

179 - 242
تعزیت صرف ایک بار ہے: اوپر کے مسئلہ میں سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے کہ اہل میت کے ہاں تعزیتی اجتماع اور ان کے ہاں کھانا پکنا، نوحہ (رونے پیٹنے) میں شامل ہے۔ اس لیے تعزیت صرف ایک بار ہونی چاہیے، ہمارے ہاں بار بار تعزیت کرنے کا جو رواج ہے وہ غلط اور ناجائز ہے۔ خود حنفی اکابر نے بھی اسے جائز نہیں رکھا۔ شاہ محمد اسحاق کا فتویٰ: ((رَوَی الْحَسَنِ عَنْ زِیَادٍ وَ اِذَا عَزّٰی اَہْلُ الْمَیِّتِ مَرَّۃً فَلَا یَنْبَغِیْ اَنْ یُعْزِّیَہٗ مَرَّۃً اُخْرٰی وَ وَقْتُہَا مِنْ حِیْنَ یَمُوْتُ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ وَ یَکْرَہُ بَعْدَہٗ))[1] ’’اہل میت سے جب ایک بار تعزیت کر لی جائے تو پھر دوبارہ تعزیت کرنا مناسب نہیں ، تعزیت مرنے کے وقت سے لے کر تین دن تک جائز ہے، بعد میں جائز نہیں ۔‘‘ مگر فقیر کے نزدیک تین دن کے بعد بھی جائز ہے۔ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چوتھے روز ان کے گھر جا کر آل جعفر رضی اللہ عنہ سے تعزیت کی اور فرمایا کہ آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا۔[2] تعزیت کے مسنون الفاظ: فقہاء نے تعزیت کے لیے کچھ الفاظ جوڑ رکھے ہیں مگر وہ مسنون نہیں ہیں ، مسنون الفاظ صرف یہ ہیں : ((عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رضی اللّٰه عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِنَّ لِلّٰہِ مَا
Flag Counter