Maktaba Wahhabi

102 - 242
((اِنَّ مَیِّتَکُمْ یَمُوْتُ طَاہِرًا فَحَسْبُکُمْ اَنْ تَغْسِلُوْا اَیْدِیَکُمْ))[1] ’’تم میں سے مرنے والا پاکیزہ حالت میں مرتا ہے۔ غسل کے بعدہاتھوں کودھو لیناہی کافی ہے۔‘‘ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میت کو غسل دیتے تھے۔ تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم میت کو غسل دے کر نہا لیتے اوربعض نہ نہاتے۔[2] یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اس غسل کو واجب نہیں سمجھتے تھے۔ یہ دونوں روایتیں بھی سیّدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تائید کر رہی ہیں کہ میت کو غسل دینے والے پر شرعاً غسل واجب نہیں ۔ تاہم اگر غسل کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور عترت کی اکثریت کے نزدیک یہ غسل زیادہ سے زیادہ مستحب ہے۔[3] امام ابو داؤد اس غسل اور وضو کو منسوخ کہتے ہیں اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس وضو سے نماز جنازہ کا وضو مراد ہے۔ بہرحال یہ وضو اور غسل زیادہ سے زیادہ مستحب ہیں ۔ واجب ہرگز نہیں ۔ ہذا ما عندی واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب! کفن: میت کو کفن دینا ضروری بلکہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک فرض ہے۔[4] اور کفن اصل مال سے ہونا چاہیے۔ اگرچہ میت کے پاس کفن کی مالیت سے زائد مال نہ بھی ہو۔ چنانچہ سیّدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ احد کے دن سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے اور ان کے ترکہ میں سوائے ایک کمبل کے اور کچھ نہ تھا، چونکہ وہ کمبل چھوٹا تھا اس لیے ان کے پاؤں اذخر (گھاس) سے ڈھانپے گئے تھے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
Flag Counter