Maktaba Wahhabi

162 - 242
الْاٰنَ یُسْئَلُ))[1] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میت کو دفن کر کے فارغ ہو جاتے تو اس قبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیتے کہ اپنے بھائی کے لیے بخشش اور ثابت قدمی کی دعا مانگو کیونکہ اب اس کا حساب ہو رہا ہے۔‘‘ مروجہ تلقین ناجائز ہے: آج کل یہ رواج عام ہو رہا ہے کہ قبر مکمل کرنے کے بعد میت کو کلمہ شہادت اور سوال و جواب کے بارے میں تلقین کی جاتی ہے۔ اہل حدیث کی طرح علماء احناف کے نزدیک بھی یہ تلقین بدعت ہے۔ علامہ عثمان زیلعی حنفی رحمہ اللہ کا فتویٰ: ((’’تلقین الشہادۃ‘‘ لِقَوْلِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَقِّنُوْا مَوْتٰکُمْ شَہَادَۃَ اَنْ لَّا اِلٰہَ الَّا اللّٰہُ الْمُرَادُ مَنْ قَرُبَ الْمَوْتَ..... اِخْتَلَفُوْا فِیْ تَلْقِیْنِہٖ بَعْدَ الْمَوْتِ فَقِیْلَ یُلَقَّنُ وَالظَّاہِرُ مَارَوَیْنَا))[2] حدیث میں جس تلقین کا حکم ہے اس سے مراد قریب الموت آدمی کو کلمہ شہادت کی تلقین مراد ہے اور یہی صحیح ہے۔ موت کے بعد تلقین ثابت نہیں ۔ پانچ صد حنفی فقہاء کا متفقہ فتویٰ: ((اَمَّا بَعْدَ الْمَوْتِ فَلَا یُلَقَّنُ عِنْدَنَا لِظَاہِرِ الرَّوَایَۃِ کَذَا فِی الْعَیْنِیْ شرح ہدایہ ومعراج الدرایہ))[3] ظاہر روایت کے مطابق موت (دفن) کے بعد تلقین (منکر و نکیر کے جوابات کی یاد دہانی) جائز نہیں ۔ شاہ اسحاق کا فتویٰ: ’’امام تلقین میت بعد از موت پس دراں اقاویل علماء است در ظاہر
Flag Counter