Maktaba Wahhabi

192 - 242
پس اسلام میں اسی جیسی رسمیں حرام ہیں ان سے پرہیز لازم ہے۔ برسی اور سالینہ: یہ خالص جاہلی رسم ہے اور مسلمانوں نے اس رسم کو اپنا کر غیر مسلموں کی نقالی شروع کر دی ہے۔ ہندوؤں کے ہاں ایصال ثواب کے لیے دنوں کا تعین ضروری ہے۔ چنانچہ مشہور مسلمان سیاح علامہ البیرونی رحمہ اللہ متوفی ۳۳۰ء اپنے سفرنامہ (کتاب الہند) میں ہندؤوں کی اس رسم کے متعلق لکھتے ہیں : ’’اہل ہنود کے نزدیک جو حقوق میت کے ورثاء پر عائد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں : ضیافت کرنا اور یوم وفات کے گیارہویں اور پندرہویں روز کھانا کھلانا ضروری ہے، اس میں ہر ماہ کی چھٹی تاریخ کو فضیلت ہے، اسی طرح اختتام سال پر بھی کھانا کھلانا ضروری ہے، نو دن تک اپنے گھر کے سامنے طعام پختہ اور پانی کا گھڑا رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ میت کی روح ناراض ہو گی اور بھوک پیاس کی حالت میں گھر کے اردگرد گھومتی رہے گی، پھر عین دسویں روز میت کے نام پر بہت سا کھانا تیار کر کے دیا جائے اور ٹھنڈا پانی دیا جائے اور اسی طرح گیارہویں تاریخ کو بھی۔‘‘ نیز لکھا ہے کہ ’’ماہ پوس میں وہ حلوہ پکا کر دیتے ہیں اور ہندؤوں کے ہاں یہ رسم بھی ہے کہ برہمن کے کھانے کے برتن بالکل علیحدہ ہوں ۔‘‘[1] مشہور نو مسلم عالم دین (سابق سکھ) مولانا عبیداللہ مالیر کوٹلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’کریا کرم (نیا بدن تیار ہونے کے دن کا عمل) یعنی مردے کے مرنے سے دس دن تک ہندوؤں کے عقیدہ آوا گون کے مطابق مردے کا ایک بدن نئے بدن کے واسطے عالم برزخ میں تیار ہوتا ہے۔ برہمن کے مرنے کے بعد گیارہواں
Flag Counter