مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تندرست آدمی کا اعتقاد بگڑ جائے وہ یہ سمجھنے لگے کہ میں بیمار آدمی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے بیمار ہو گیا ہوں ، یعنی چھوت کا قائل ہو جائے، اس لیے ضعیف الاعتقاد لوگوں کا ایمان بچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت جاری فرمائی۔[1]
وباء سے فرار منع ہے:
اس گفتگو سے معلوم ہوا کہ کوئی مرض متعدی (چھوت) نہیں ہوتی، لہٰذا جب تقدیر الٰہی سے کسی علاقہ میں کوئی وباء پھوٹ پڑے تو اس وبا زدہ علاقہ سے فرار جائز نہیں ۔
((عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ اَنَّ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنہ خَرَجَ اِلَی الشَّامِ فَلَمَّا کَانَ بِسَرْغٍ بَلَغَہٗ اِنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ فَاَخْبَرَہٗ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ رضی اللّٰه عنہ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ اِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِاَرْضٍ فَلَا تَقْدِمُوْا عَلَیْہِ وَاِذَا وَقَعَ بِاَرْضٍ وَاَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِنْہُ)) [2]
’’عبداللہ بن عامر کہتے ہیں ، کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے (جب مدینہ منورہ سے تیرہ منزل پر) مقام سرغ پر پہنچے، تو ان کو معلوم ہوا کہ شام کے ملک میں طاعون پھیل گیا ہے، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی علاقہ میں وباء آ چکی ہے، تو وہاں مت جاؤ، اور تمہارے علاقہ میں (جہاں رہتے ہو) وباء پھیل جائے، تو بھاگنے کی نیت سے وہاں سے نکلو بھی نہیں ۔‘‘
آب و ہوا تبدیل کرنا جائز ہے:
تاہم اگر کسی مقام کی آب و ہوا نا موافق ہو، تو وہاں سے نکل کر کسی صحت افزا مقام پر منتقل ہو جانا جائز ہے بشرطیکہ کہ کسی وباء سے بھاگنا مقصود نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
|