Maktaba Wahhabi

151 - 242
جواب (۱):..... مندرہ بالا احادیث و قرآن سے ثابت ہوا کہ کسی شہری یا دیہاتی کی ملکیتی زمین رہائشی ہو یا زرعی پر غاصبانہ قبضہ ظلم صریح، گناہ کبیرہ اور قوانین اسلام کے سراسر خلاف ہے۔ لہٰذا غصب شدہ پلاٹ کو قبرستان میں تبدیل کرنا شرعا ہر گز جائز نہیں ۔ جواب(۲):..... غیر مسلم خواہ عیسائی ہو یا ہندو، یہودی یا مرزائی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ سیّدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ ((اِنَّہٗ دُفن اِمْرَأَۃٌ نَصْرَانِیَّۃٌ فِیْ بَطْنِہَا وَلَدٌ مُسْلِمٌ فِیْ مَقْبَرَۃٍ لَیْسَتْ بِمَقْبُرَۃِ النَّصَارٰی وَلَا الْمُسْلِمِیْنَ)) [1] ’’ایک نصرانی عورت جس کے بطن میں اس کے مسلمان شوہر کے نطفہ سے مسلمان بچہ تھا کو ایسے مقبرہ میں دفن کیا گیا جو نہ تو عیسائیوں کا قبرستان تھا اور نہ مسلمانوں کا قبرستان تھا۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار فرمایا ہے: ((اِخْتَارَ ہٰذَا الْاِمَامُ اَحْمَدُ لِاَنَّہَا کَافِرَۃٌ لَا تُدْفَنُ فِیْ مَقْبَرَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَتَاَذُّوْا بِعَذَابِہَا وَلَا فِیْ مَقْبَرَۃِ الْکُفَّارِ لِاَنَّ وَلَدَہَا مُسْلِمًا فَیَتَاَذّٰی بِعَذَابِہِمْ))[2] ’’امام احمد رحمہ اللہ نے یہ رائے اس لیے اختیار فرمائی ہے کہ غیر مسلم میت کو اگر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جاتا تو اس کے عذاب کی وجہ سے مسلمان مقبورین کو ایذاء پہنچتی اور اگر اس عورت کو کافروں کے قبرستان میں دفن کیا جاتا تو اس کے پیٹ میں مسلم بچے کو کافروں کے عذاب سے ایذا پہنچتی۔‘‘ بہر کیف اس روایت سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم کو مسلم مقبرہ میں دفن کرنا جائز نہیں ۔ مزید یہ کہ غیر مسلم زندہ انسان کو السلام علیکم ابتدائً کہنا جائز نہیں اور اس کے احترام میں راستہ چھوڑنا
Flag Counter