Maktaba Wahhabi

130 - 242
جو شخص کلمہ شہادت کا قائل ہے اس کے بھی وہی حقوق و مراعات ہیں جو تمام مسلمانوں کے لیے ہے اورنماز جنازہ بھی انہی مراعات میں سے ہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں : ((وَیَدُلُّ لَہٗ حَدِیْثُ الَّذِیْ قَتَلَ نَفْسَہٗ بِمَشَاقِصَ فَقَالَ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : اَمَا اَنَا وَلَا اُصَلِّیْ عَلَیْہِ وَلَمْ یَنْہَہُمْ عَنِ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِ وَلِاَنَّ عَمُوْمَ شَرْعِیَّۃٍ صَلَاۃُ الْجَنَازَۃِ لَا یُخَصُّ مِنْہُ اَحَدٌ مِنْ اَہْلِ کَلِمَۃِ الشَّہَادَۃِ اِلاَّ بِدَلِیْلٍ))[1] ’’ہر کلمہ گو کی نمازجنازہ پڑھنے پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ جس میں آتا ہے کہ ایک آدمی نے خود کشی کرلی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا تھا۔‘‘ اسی طرح مدیون کی نماز جنازہ والی حدیث بھی اس کے جوازکی دلیل ہے کہ وہ جن چار آدمیوں کی نماز جنازہ کے قائل نہیں ہیں ان میں شرابی کا ذکر نہیں کرتے۔ باغی اور ڈاکو، عصبیت کے لیے لڑتے ہوئے مرنے والا، مسلح ہو کر رات کو شہریوں کو بلاوجہ ڈرانے والا اور بار بار گلا دبا کر مرنے والا۔ جیسا کہ شامی کے حاشیہ میں ہے: ((وَہِیَ فَرْضٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ مَاتَ خَلَا اَرْبَعَۃِ بُغَاۃٍ وَقُطَّاعِ طَرِیْقٍ وَکَذَا اَہْلِ عَصَبِیَّۃٍ وَمَکَابِرٍ فِیْ مِصْرٍ لَیْلًا بِسَلَاحٍ وَخَنَاقٍ))[2] بہرحال ان دلائل کے مطابق شراب پی کر مرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنی جائز معلوم ہوتی ہے، مگر مقرر امام کے علاوہ کسی عامی آدمی کو اس کی نماز جنازہ پڑھانی چاہیے تاکہ دوسرے
Flag Counter