Maktaba Wahhabi

101 - 242
میت کو نہلانے والے پر غسل اور میت کو کندھا دینے والے پر وضو کر لینا واجب ہے۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی طرف گئے ہیں ۔ (۲)..... ((عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ وَہُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ اَنْ اَسْمَآئَ بِنْتِ عُمَیْسٍ اِمْرَاَۃَ اَبِیْ بَکْرِنِ الصِّدِّیْقِ رضی اللّٰه عنہ غَسَلَتْ اَبَا بَکْرٍ حِیْنَ تُوُفِّیَ ثُمَّ خَرَجَتْ فَسَأَلَتْ مَنْ حَضرَھَا مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ فَقَالَتْ اِنَّ ہٰذَا یَوْمٌ شَدِیْدُ الْبَرْدِ وَاَنَا صَائِمَۃٌ ہَلْ عَلَیّ مِنْ غُسْلٍ قَالوْا لَا)) [1] ’’جب سیّدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اپنے نامور شوہر سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی وفات کے بعد غسل دے کر فارغ ہوئیں تو انہوں نے اس موقع پر موجودمہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا کہ آج کا یہ دن بڑا سرد ہے اور میں روزہ سے ہوں کیا مجھ پر غسل واجب ہے؟ تو مہاجرین نے فرمایا نہیں ۔ یہ حدیث بھی ضعیف ہے تاہم اس کا شاہد بھی موجود ہے۔‘‘ یہ حدیث پہلی حدیث سے متعارض ہے کیونکہ یہ حدیث عدم وجوب غسل پر دلالت کرتی ہے، یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مہاجرین اولین کی کثیرجماعت ایک واجب امر سے لا علم ہو اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ مہاجرین کی یہ جماعت چند افراد پر مشتمل ہو کیونکہ سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات حسرت آیات کوئی معمولی حادثہ نہ تھا کہ مہاجرین کو ان کی موت کی اطلاع بھی ہو اور وہ گھروں میں بیٹھے رہے ہوں اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی موت کو کوئی اہمیت نہ دی ہو۔ اس لیے قیاس یہی ہے کہ مدینہ منورہ میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے اور سب نے بیک زبان سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا کوعدم وجوب کا فتویٰ دیا لہٰذا یہ جواب اس بات کی قوی دلیل ہے کہ میت کو نہلانے والے پر غسل واجب نہیں اور اسی طرح میت کو کندھا دینے والے پر وضوء واجب نہیں اور اس موقف کی مزید تائید حسب ذیل دو روایات سے بھی ہوتی ہے۔
Flag Counter