موصوف کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا سبب اس صحیح دین میں ان کا اختلاف تھا جس پر کہ وہ قائم تھے ۔جیسا کہ اہلِ عرب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم تھے، یہاں تک کہ عمرو بن لحی الخزاعی آیا اور اس نے دینِ ابراہیمی کو بدل دیا اور سارے عرب اور بالخصوص سر زمینِ حجاز کو بتوں سے بھرکر رکھ دیا، پھر اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی پرستش ہونے لگی اور اس مقدس شہر اور اس کے قرب وجوار میں شرک پھیل گیا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، آپ نے لوگوں کو توحید اور ملتِ ابراہیمی کی اتباع کی دعوت دی اور اﷲ کی راہ میں بھر پورجہاد کیا، یہاں تک کہ عقیدہء توحید اور ملت ابراہیمی لوگوں کی زندگی میں پھر سے لوٹ آئی، بت توڑے گئے اور اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین کو مکمل کیا اور تمام جہانوں پر اپنی نعمت کی تکمیل فرمائی، اور آپ علیہ السلام کے بتلائے ہوئے طریقے پر ہی اس امت کے ابتدائی صدیوں کے لوگ رہے، یہاں تک کہ پچھلے دور کے لوگوں میں جہالت پھیل گئی، اور دوسرے ادیان کے اثرات ان میں داخل ہوگئے، پھر اس امت کے ایک بڑے طبقے میں،اولیاء اﷲ اور صالحین کی تعظیم اور ان سے محبت کے دعوے اور گمراہی کے مبلغین کی وجہ سے، شرک در آیا، یہاں تک کہ ان کی قبروں پر عظیم الشان قبے بنائے گئے اور بت بنا کرانہیں اﷲ کے سوا پوجا جانے لگا اور ان کی بارگاہ میں دعا واستغاثہ اور ندر ونیاز اور ذبح وقربانی جیسی مختلف عبادات شروع ہوگئیں، اور اس شرک کو انہوں نے ’’ وسیلہ ‘‘کا نام دے دیا کہ یہ صالحین کی عبادت نہیں بلکہ ان سے اظہارِ عقیدت ہے، اور وہ یہ بھول گئے کہ یہی دلیل ان سے پہلے مشرکین کی بھی ہوا کرتی تھی ۔وہ کہتے تھے : ﴿ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی﴾ (الزمر :3 )ترجمہ : ہم ان کی عبادت محض اس لئے کرتے
|