Maktaba Wahhabi

157 - 242
سمجھتا ہے، تو ایسا شخص بھی کافر ہے، اس لئے کہ ہر قوم اپنے سپوتوں کو انصاف کا حکم دیتی ہے، اور عدل وانصاف کا حکم ان کے دین میں رہتا ہے، جس کا دستور ان کے اکابر نے بنایا، بلکہ بہت سے مسلم حکمران احکام الٰہی کے بجائے اپنی روایات، یا اپنے اسلاف کی روش کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں،اور ان کا خیال ہے کہ کتاب وسنت کے بجائے انہی قوانین سے حکمرانی کرنا زیادہ موزوں ہے، اوریہی کفر ہے ۔اکثر مسلم حکمران اپنی جاری روایات کے مطابق حکمرانی کرتے ہیں، جسکا کہ انکے عوام انہیں حکم دیتے ہیں، انہیں اس بات کا پتہ ہونے کے باوجود کہ غیر شرعی قوانین سے حکمرانی ناجائز ہے، لیکن پھر بھی اسکا اہتمام نہیں کرتے، بلکہ غیر شرعی قوانین سے حکمرانی کو حلال اور جائز سمجھتے ہیں، تو ایسے لوگ کافر ہیں ۔ ( منہاج السنۃ النبویۃ ) شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں : جب کوئی شخص غیر اﷲ کے پاس فیصلہ کے لئے اس اعتقاد کے ساتھ جاتا ہے کہ وہ معصیت کا ارتکاب کررہا ہے، اور اﷲ کا فیصلہ ہی برحق ہے، جب کبھی اس سے ایک دو مرتبہ یہ عمل ہوگیا تو یہ کفر اصغر ہے ۔اگر کسی نے کوئی مرتب شدہ دستور ہی بنا ڈالا جو وضعی قوانین پر مشتمل ہے، تو یہ ایسا کفر ہے جس سے مسلمان ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے، اگرچہ کہ وہ اس بات کا اعتراف کرے کہ ہم غلطی پر ہیں اور شرعی احکام زیادہ مبنی بر انصاف ہیں ۔ (مجموع فتاویٰ الشیخ محمد بن ابراہیم : 12؍280) شیخ رحمہ اﷲ نے اپنے قول میں، ایسا جزئی فیصلہ جو بار بار دہرایا نہیں جاتا، اور ایسے دستورِ عام کے درمیان فرق کیا ہے جو تمام احکام وقوانین کا مرجع ہے،اور فرمایا کہ یہ کفر ملت سے خارج کرنے والا ہے، اس لئے کہ جو شریعتِ اسلامیہ سے ہٹ کر اس کی جگہ وضعی قانون صادر کرتا ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اس قانون
Flag Counter