شرح:…
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عدالت کا عقیدہ:
اہل سنت و الجماعت کا ایک اصول، جس کی بنا پر وہ اہل زیغ و ضلال سے جدا ہو جاتے ہیں ، یہ بھی ہے کہ وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی میں عیب جوئی یا ان پر طعنہ زنی نہیں کرتے، ان کے بارے میں دلوں میں کینہ نہیں پالتے، ان سے نفرت و حقارت نہیں کرتے۔ ان کے سینے ان باتوں سے بے کینہ اور زبانیں ان آلائشوں میں پڑنے سے پاک ہیں ۔ وہ ان مقدس ہستیوں کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں جو رب تعالیٰ نے ان کے بارے میں بیان کیا ہے کہ:
﴿رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ﴾ (الحشر: ۱۰)
’’پروردگار ہمارے اور ہم سے پہلے ایمان لانے والے ہمارے بھائیوں کے گناہ معاف کر۔‘‘
یہ ان لوگوں کی زبان پر جاری ہونے والے دعائیہ کلمات ہیں جو ان کے بعد نیکی کے ساتھ ایمان لائے، اور یہ دعا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہیں صحابۂ کرام سے کمال محبت تھی اور وہ ان کی تعریف بیان کیا کرتے تھے۔ اور حضرات صحابہ کرام اپنی فضیلت، مسابقت فی الاسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرفِ صحابیت اور اختصاص کی وجہ سے اور پوری امت پر اس بات کا احسان کرنے کی وجہ سے اس عزت و تکریم کے مستحق تھے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے دین کو بلا کم و کاست ان تک پہنچا دیا۔ ان تک جو علم اور خبر بھی پہنچی وہ انہیں کے واسطہ سے پہنچی۔ اہل سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی بنا پر ان کی عزت کرتے ہیں کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ بغض رکھنے سے اور انہیں سب وشتم کرنے سے منع فرمایا ہے، اور بتلایا ہے کہ ان حضرات کا تھوڑا سا عمل بھی دوسروں کے بہت زیادہ عمل سے افضل ہے اور یہ ان کے کمال اخلاق اور دین میں صداقت کی بنا پر ہے۔
صلح حدیبیہ سے پہلے والے صحابہ کی فضیلت کا بیان:
جنہوں نے صلح حدیبیہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ بعد والوں سے افضل ہیں کیوں کہ اس بارے میں خود قرآن کریم میں نص آئی ہے: ارشاد ہے:
﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ
|