تعالیٰ کی مشیئت سے ہوا اور اگر رب تعالیٰ چاہتے کہ ایسا نہ ہو تو یقینا ایسا نہ ہوتا لیکن جب رب تعالیٰ نے اس کو چاہ لیا تو ایسا ہو کر رہا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ﴾ (المائدۃ: ۱)
’’تمہارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں ) حلال کر دیے گئے۔ بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا) بے شک اللہ جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)
’’تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت کرے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا کہ وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔‘‘
ہدایت اور گمراہی اللہ نے پیدا کی ہے:
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہدایت اور گمراہی دونوں کو رب تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ ہدایت یہاں الہام اور توفیق کے معنی میں ہے۔ یعنی جس شخص کو رب تعالیٰ الہام کرنا اور توفیق بخشنا چاہتے ہیں ۔ اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں ۔ جس کی صورت یہ ہے کہ رب تعالیٰ اس کے دل میں نورِ (ہدایت) ڈال دیتا ہے پھر اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ ہو جاتا ہے اور پھیل جاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں یہ مضمون آیا ہے، اور جس شخص کو اللہ گمراہ اور رسوا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے سینے کو (اسلام کے لیے) بے انتہا رنگ اور گھٹا ہوا کر دیتے ہیں کہ پھر ایمان کا نور اس کے دل تک راہ ہی نہیں پاتا۔ ایسے شخص کو رب تعالیٰ نے آسمان پر چڑھنے والے شخص کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔
_________________________________________________
اصل متن :… وقولہ: ﴿وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۹۶) ﴿وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ﴾ (الحجرات: ۹) ﴿فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ﴾ (التوبۃ: ۷) ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ
|