Maktaba Wahhabi

187 - 238
اپنے علماء و مشائخ میں غلو کیا۔ اور بعض نے پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ جو ر و جفا کرنے میں حد کر دی یہاں تک کہ ان کے خون سے ہاتھ رنگے اور ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ ’’جیسے یہود جنہوں نے سیدنا زکریا و یحییٰ کو قتل کیا اور سیدنا عیسیٰ کی جان لینے کی کوشش کی اور ان پر بے جا تہمت لگائی۔ جب کہ امت محمد رب تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سب پیغمبروں پر ایمان لائی۔ ان کی رسالت کو مانا، ان کے بلند مقام و مرتبہ کا اعتراف کیا اور رب تعالیٰ کے ان کے خصوصی فضل و احسان اور انعام و کرام کو تسلیم کیا۔ حلال و حرام میں من مانیاں کرنے والوں کی ہلاکت آفرینیاں : پھر بعض امتوں نے ہر شے حلال کر لی حتیٰ کہ حرام اور ناپاک اشیاء بھی جب کہ بعضوں نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے، غلو کا ارتکاب کرتے ہوئے اور حد سے تجاوز کرتے ہوئے پاکیزہ چیزوں کو بھی حرام قرار دے دیا۔ جب کہ اس امت نے اپنے لیے صرف طیبات کو حلال کیا اور سب خبائث کو اپنے اوپر حرام کیا۔ غرض بے شمار باتیں ہیں جن میں رب تعالیٰ نے اس امت کامل پر خصوصی انعام کیا اور انہیں ان سب باتوں میں راہ اعتدال کی توفیق بخشی۔ یہی حال اہل سنت و الجماعت کا ہے کہ وہ اس امت کے صراط مستقیم سے گم راہ اور بھٹکے ہوئے بدعتی فرقوں میں سے متعدل فرقہ ہے۔ اہل سنت والجماعت کے اعتدال اور صراط مستقیم پر ہونے کی مثالیں : صفات باری تعالیٰ میں اعتدال ’’فھم وسط فی باب صفات اللّٰه…‘‘ سے علامہ رحمہ اللہ یہ بیان فرما رہے ہیں کہ صفاتِ باری تعالیٰ کی بابت اہل سنت و الجماعت اعتدال پر ہیں ۔ چناں چہ ان کے ایک طرف وہ فرقے ہیں جو ان صفات کی نفی اور تعطیل کرتے ہیں اور رب تعالیٰ کی بلند ذات کو ان صفات سے معطل قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف وہ فرقے ہیں جو رب تعالیٰ کی صفات کی بابت وارد و آیات و احادیث کو معانی صحیحہ ہی میں تحریف کرتے ہوئے انہیں اپنے اعتقادات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں جو ایسے معانی ہیں جن کی بنیاد کسی صحیح دلیل یا عقل صریح پر نہیں جیسے ان کا یہ کہنا کہ ارادہ سے مراد احسان ہے، ید سے مراد قدرت ہے، عین سے مراد حفظ و نگہداشت، اور رعایت و عنایت ہے، استواء سے مراد استیلاء ہے وغیرہ وغیرہ کہ یہ سب کی سب تاویلات و تحریفات رب تعالیٰ کی صفات کی نفی
Flag Counter