کل کائنات پر رب تعالیٰ کی بادشاہت کی بین دلیل:
اس کے بعد رب تعالیٰ نے اس بات کو ذکر کیا جو اس کی بادشاہت کے کمال و تمام پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے آگے کوئی بھی کسی کے لیے کسی قسم کی سفارش نہیں کر سکتا۔ (چناں چہ فرمایا:
﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾
’’کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے۔‘‘)
شفاعتِ صحیحہ حق ہے:
(اس پیرایہ بیان میں دو باتیں مذکور ہیں ایک نفی اور دوسرے استثناء) اور یہ نفی اور استثناء دو باتوں کو متضمن ہیں :
(۱)… صحیح شفاعت ثابت ہے اور یہ وہ شفاعت ہے جو رب تعالیٰ کی اجازت سے اس کے لیے ہوگی جس کے قول و عمل سے رب تعالیٰ راضی ہوں گے۔ (چناں چہ جس سے رب تعالیٰ راضی ہوں گی اسے شفاعت کرنے کی اجازت عطا فرمائیں گے)۔
(۲)… شفاعتِ شرکیہ باطل ہے جس کا مشرکین اپنے بتوں کے حق میں اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ رب تعالیٰ کی اجازت و رضا کے بغیر (روزِ قیامت اپنے پرستاروں کی) شفاعت کریں گے (مگر ان کا یہ اعتقاد باطل ہے۔ کیوں کہ اس روز تو انہیں دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جائے گا چہ جائیکہ وہ کسی کی سفارش و شفاعت کریں )۔
رب تعالیٰ کے علم کی وسعت و احاطہ سے ماضی و مستقبل کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں :
اس کے بعد رب تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت اور اس کے احاطہ کو ذکر کیا کہ ماضی اور مستقبل کی کوئی بات اس کے علم سے مخفی نہیں ۔
مخلوق کو علمِ الٰہی پر کوئی دسترس حاصل نہیں :
رہی مخلوق تو اسے علم الٰہی پر سرے سے کوئی دسترس حاصل نہیں ۔ چناں چہ فرمایا:
﴿وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ﴾
’’اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہتا ہے (معلوم کرا دیتا ہے)۔‘‘
|