باتوں کو حلال کر لیا جو ایک کافر کی حلال ہوتی ہیں ۔
جب کہ معتزلہ نے یہ (پیچ دار) بات کہی کہ مرتکب کبیر، ایمان سے تو نکل گیا مگر کفر میں داخل نہ ہوا۔ پس وہ دو منزلوں کی بیچ کی ایک منزل میں ہے۔ مذہب اعتزال جن اصولوں پر قائم ہے یہ ان میں سے ایک اہم ترین اصول ہے۔
جب کہ اس بات پر بھی دونوں فرقوں کا اتفاق ہے کہ جو مرتکب کبیرہ توبہ کیے بغیر مر جائے وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ پس ان دونوں فرقوں کا دو باتوں میں اتفاق ہوا:
۱۔ مرتکب کبیرہ ایمان سے محروم ہے۔
۲۔ وہ دوزخ میں دوسرے کافروں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔
اور دو باتوں میں ان میں باہم اختلاف ہے:
۱:…اس کا نام کافر رکھا جائے یا نہیں ۔
۲:…اس کی جان و مال اور آبرو وغیرہ حلال ہے یا نہیں ۔
(اس تفصیل سے ) یہ (معلوم ہوا کہ مرتکب کبیرہ کے اخروی حکم میں تو دونوں باہم متفق ہیں ، جب کہ) دنیوی حکم (میں اختلاف) ہے۔ (جو اوپر دو نکات میں بیان ہوا)۔
مرجیہ کی آزادیاں :
ان کا مذہب گزشتہ سطور میں بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ ایمان کے ساتھ کسی معصیت کو مضر نہیں جانتے۔ ان کے نزدیک کبیرہ کا مرتکب بھی کامل الایمان مومن ہے جو جہنم میں داخل کیے جانے کا مستحق نہیں ۔
مرتکب کبیرہ کے دنیاوی اور اخروی حکم کے متعلق اہل سنت کی راہ اعتدال:
اہل سنت اس باب میں دونوں مذاہب کے بین بین معتدل رستے پر ہیں ، پس ان کے نزدیک کبیرہ کا مرتکب مومن ہے یا اس کا ایمان ناقص ہے اور اس کا نقص کبائر کے ارتکاب کے بقد رہے۔ پس اہل سنت خوارج اور معتزلہ کی طرح نہ تو مرتکب کبیرہ کے ایمان کی بالکلیہ نفی کرتے ہیں اور نہ ہی مرجیئہ جہمیہ کی طرح اسے کامل الایمان قرار دیتے ہیں ۔ (یہ تو دنیاوی حکم ہوا)
جب کہ ان کے نزدیک آخرت میں مرتکب کبیرہ کو کبھی تو رب تعالیٰ اسے شروع ہی سے معاف کر کے جنت میں داخل کر دیں گے یا پھر اس کی معصیت کے بقدر عذاب دے کر جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کریں گے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا۔
|