دوسري دلیل:تمام مخلوقات کی مضبوطی، پختگی، استحکام، ان کی عجیب و غریب کاریگری اور ان کی خلقت و پیدائش کی دقت و باریگی اور لطافت ، یہ سب ان کے بنانے والے کے علم پر شاہدِ ناطق ہیں کہ ایسی مخلوقات کا بغیر خالق کے علم کے وجود میں آنا ممتنع اور محال ہے۔
تیسري دلیل: بعض مخلوقات بھی علم رکھتی ہیں اور علم (کسی کے) کمال پر دلالت کرنے والی صفت ہے۔ اب اگر خود اللہ صفتِ علم سے متصف نہ ہو تو لازم آئے گا کہ اس کی مخلوقات میں بعض مخلوق اس سے زیادہ کامل ہے۔ (اور یہ محال اور نا ممکن ہے) کیوں کہ جس مخلوق کے پاس جو بھی علم ہے وہ رب ذوالجلال کی ذات اقدس سے مستفاد ہے اور (جب علم ’’کمال‘‘ ہے اور یہ کمال مخلوق کو دینے والا اللہ ہے تو دوسروں کو) کمال بخشنے والا خود اس کمال کا (سب سے بڑھ کر) مستحق ہے، اور جس کے پاس خود ایک چیز نہ ہو وہ اسے دوسروں کو کیسے دے سکتا ہے؟
فلاسفہ اور قدریہ کے بعض فاسد استدلالات اور ان کا ردّ:
بعض فلاسفہ نے جزئیات سے استدلال کرتے ہوئے رب تعالیٰ کے علم کی نفی کی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ: ’’رب تعالیٰ کو اشیاء کا علم ’’کلی‘‘ اعتبار سے ہے‘‘ لیکن در حقیقت ان کا کہنا یہ ہے کہ: ’’اللہ کچھ نہیں جانتا‘‘ کیوں کہ (کلی کا وجود صرف ذہن ہوتا ہے، جب کہ) خارج میں صرف جزئی پائی جاتی ہے (تو رب تعالیٰ کے لیے خارج میں موجود جزئیات کا علم ثابت ہی نہیں اور وہ صرف ان کو مفہوم کلی کے ساتھ ہی جانتا ہے تو دراصل یہ رب تعالیٰ کے تفصیلی علم کا صریح انکار کرنا ہے)۔
بعض غالی قدریہ نے ’’بندوں کے افعال‘‘ سے استدلال کر کے رب تعالیٰ کے علم کی نفی کی ہے، (ان کا کہنا ہے) کہ جب تک بندے اپنے افعال کر نہیں لیتے (رب تعالیٰ کو ان کا علم نہیں ہوتا، اور اس فاسد نظریہ کے اپنانے میں ) انہیں (دراصل) اس بات کا وہم ہوا ہے کہ (اگر) بندوں کے افعال کا رب تعالیٰ کو (پہلے سے) علم ہو تو یہ بات (عقیدہ) ’’جبر‘‘ تک پہنچاتی ہے (کہ جب یہ بات پہلے سے اللہ کے علم میں ہے کہ بندہ یہ کرے گا تو اب گویا کہ وہ اس کے آنے پر مجبور ہوا اور اس کو ’’نظریہ جبر‘‘ کہتے ہیں ) مگر ان لوگوں کے اس قول کا بالضرور باطل ہونا جملہ مذاہب میں معلوم اور معروف ہے۔
_________________________________________________
وقولہ: ﴿اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ﴾ (الذاریات: ۵۸)
’’اللہ ہی تو رزق دینے والا ہے، زور آور مضبوط ہے۔‘‘
|