دلالت ہے اور یہی بات دل کے عقائد اور اعضاء وجوارح کے اعمال میں فرق ہونے کی بنا پر مختلف مومنوں میں مختلف دیکھی جاتی ہے۔
ایمان کے گھٹنے بڑھنے کے دلائل
اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے اہل ایمان کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے:
﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَ مِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ (فاطر: ۳۲)
’’پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا تو کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں ۔‘‘
(اس آیت میں ایمان والوں کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں )
۱۔ سابق بالخیرات:
نیکی میں آگے تک جانے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو واجبات و مستحبات کو ادا کرتے ہیں اور محرمات و مکروہات کو ترک کر دیتے ہیں ۔ یہ لوگ مقربین ہیں ۔
۲۔ مقتصدین:
میانہ رو، یہ وہ لوگ جو صرف ادائیگی واجبات پر اور محرمات سے کنارہ کرنے پر اکتفاء کر لیتے ہیں ۔
۳۔ ظالم لنفسہ:
اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حرام باتوں پر جرأت کرتے ہیں اور بعض واجبات کو ترک کر دیتے ہیں ۔ جب کہ ان کے ساتھ اصل ایمان باقی ہوتا ہے۔ دوسری دلیل اہل ایمان کا علوم ایمان میں متفاوت ہونا ہے۔ چناں چہ کچھ تو عقائد کی تفصیلات میں خیر کثیر کو پہنچنے ہوتے ہیں ۔ جس سے ان کا ایمان زیادہ اور یقین کامل ہوتا ہے۔ پھر کچھ علوم ایمان میں ان سے کم تر درجہ کے ہوتے ہیں ۔ بعض کا یہ حال ہوتا ہے کہ انہیں ایمان کا صرف اجمالی علم حاصل ہوتا ہے اور وہ تفصیلات ایمان میں سے کچھ نہیں جانتے، مگر اس کے باوجود مومن ہوتے ہیں ۔
اسی طرح اہل ایمان قلب و جوارح کے بے شمار اعمال میں اور نیکیوں کی قلت و کثرت میں بھی
|