شرح:…
رویت باری تعالیٰ کا اثبات حدیث متواتر سے ہے:
مذکورہ حدیث نمبر ۱۵ متواتر اور صحیح ہے جو ان گزشتہ مذکورہ آیات کی شاہد ہے جن میں اہل ایمان کے جنت میں رب تعالیٰ کی رؤیت سے سرفراز ہونے کا اور رب ذوالجلال کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھ کر نگاہیں ٹھنڈی کرنے کا ذکر ہے۔
قرآن و حدیث کے یہ دلائل دو باتوں پر دلالت کرتے ہیں :
۱۔ رب تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بلند و برتر اور ان سے اوپر ہے، کیوں کہ یہ تمام دلائل اس بات کو بیان کرنے میں صریح ہیں کہ اہل ایمان رب تعالیٰ کو اپنے اوپر سے دیکھیں گے۔
۲۔ بندوں کو ملنے والی سب سے بڑی نعمت ربِ ذوالجلال والاکرام کے چہرۂ انور کی زیارت ہے۔
چند علمی نکات
(مذکورہ حدیث سے مستفاد چند علمی نکات کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے)
۱۔مذکورہ تشبیہ رویت کی رؤیت کے ساتھ ہے:
’’کما ترون القمر لیلۃ البدر‘‘ میں ایک رؤیت کی دوسری رؤیت کے ساتھ تشبیہ ہے ناکہ ایک مرئی (دیکھے جانے والی چیز، جو رب ہے) کی دوسری مرئی (جو چاند ہے) کے ساتھ تشبیہ ہے۔ (یعنی یہ اللہ کی چاند کے ساتھ تشبیہ نہیں بلکہ) مراد یہ ہے کہ تمھارا رب تعالیٰ کو دیکھنا اس قدر ظاہر اور واضح ہو گا جس طرح تم چاند کو کامل ترین صورت میں دیکھتے ہو کہ جب ایک تو وہ پورا ہو اور دوسرے مطلع بے غبار ہو (کہ جیسے اس وقت چاند کی رؤیت ظاہر اور خوب ہوتی ہے، اسی طرح روز قیامت جنت میں تمھاری رب تعالیٰ کی رؤیت خوب ظاہر اور واضح ہوگی۔)
۲۔ ’’لا تضامون‘‘ کو دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں :
(چونکہ رب تعالیٰ کی رؤیت خوب ظاہر اور کسی قسم کے حجاب، اوٹ آڑ یا رکاوٹ کے بغیر خوب ظاہر ہو گی تو پھر اس کے دیکھنے میں زورازوری، دھکم پیل، گھسٹر بھسڑ کہاں سے ہوئی) اسی لیے فرمایا: ’’لا تضامون فی رؤیتہ‘‘ تم اس کے دیکھنے میں کوئی دقت نہ اٹھاؤ گے اور ایک دوسرے کے ساتھ کوئی دھکم پیل نہ کرو گے۔
لا تضامون کو دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں :
|