Maktaba Wahhabi

174 - 238
کہ اس نے (جہنم سے) اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کو ضرور بھرے گا۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾ (ھود: ۱۱۹) ’’میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔‘‘ رب تعالیٰ کی ذات عدل و انصاف والی ہے: جب رب تعالیٰ کی رحمت اور عدل کا مقتضی یہ تھا کہ کسی کو بے گناہ کے عذاب نہ دیا جائے، ادھر جہنم حد درجہ وسیع اور گہری ہے تو رب تعالیٰ جہنم کو بھرنے کے وعدہ کو یوں پورا کریں گے کہ اس میں اپنا قدم رکھ دیں گے جس سے اس کے دونوں کنارے ایک دوسرے سے مل جائیں گے یوں اس میں جہنم کے مستحق و سزاوار لوگوں کے سوا دوسرے کسی کے لیے جگہ نہ بچے گی۔ (اور یہی جہنم کا بھرنا ہے) جنت کی وسعتوں کا بیان: رہ گئی جنت تو بے شک وہ بے حد وسیع اور لمبی چوڑی ہے اور اس میں بے شمار جنتیوں کے اور ان کو ملنے والے بے شمار انعامات کے باوجود اس میں جنتیوں سے جگہ بچ رہے گی۔ چناں چہ اس کو بھرنے کے لیے رب تعالیٰ ایک اور مخلوق کو پیدا کرے گا (اور اس کو کسی عمل اور حساب کتاب کے بغیر جنت میں داخل کر دے گا) جیسا کہ یہ بات حدیث میں ثابت ہے۔ قول، نداء اور تکلیم رب تعالیٰ کی صفات فعلیہ ہیں : ’’یقول اللہ تعالیٰ یا آدم…‘‘ اس حدیث میں اور اس سے اگلی حدیث (نمبر ۶) میں رب تعالیٰ کے لیے قول، ندا اور تکلیم کا اثبات ہے۔ اس باب میں اہل سنت والجماعت کے مذہب کو ہم نے گزشتہ صفحات میں بیان کر دیا ہے کہ وہ ان سب پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ رب تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ ہیں جو اس کی حکمت ومشیئت کے تابع ہیں چناں چہ اس باب میں رب تعالیٰ نے قال، یقول، نادی ینادی اور کلم یکلم میں سے جو بھی کہا ہے ان کا ان سب پر ایمان ہے، اور یہ کہ رب تعالیٰ کا قول، ندا اور تکلیم یہ حروف اور اصوات کے ساتھ ہے جس کو وہ سنتا ہے جس کے ہاتھ رب تعالیٰ بات کرتے ہیں اور اس کو پکارتے ہیں اور یہ اشاعرہ کے اس قول پر رد ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ کا کلام قدیم ہے اور حرف اور صوت کے بغیر ہے۔
Flag Counter