ان احادیث کا ایک نمونہ ہیں جن میں رب تعالیٰ کے اسماء وصفات کا ذکر ہے جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کے بارے میں خبر دی ہے۔ان سب غیر مذکورہ احادیث کا حکم بھی یہی ہے کہ ان میں جن اسماء و صفات الٰہی کا ذکر ہے ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔
اہل سنت و الجماعت کا رب تعالیٰ کے سب اسماء اور صفات پر ایمان ہے:
پھر بات کو دہراتے ہوئے اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ کی تاکید کہ وہ احادیث صحیحہ میں وارد صفاتِ باری تعالیٰ پر ہر قسم کی تحریف، تعطیل، تشبیہ اور تکییف کے بغیر اسی طرح ایمان رکھتے ہیں جس طرح وہ کتاب اللہ میں بیان کردہ صفات پر ایمان رکھتے ہیں ۔
اہل سنت و الجماعت اس امت کے گمراہ اور بھٹکے ہوئے فرقوں کے درمیان معتدل فرقہ ہے:
پھر علامہ رحمہ اللہ نے اہل سنت و الجماعت کے بارے میں اس بات کی خبر دی کہ وہ اس امت کے بے راہ اور کج رو فرقوں کے درمیان راہِ اعتدال پر ہیں جس طرح (مجموعی طور پر) یہ امت گزشتہ امتوں کے درمیان ’’امت وسط‘‘ ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے:
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا﴾ (البقرۃ: ۱۴۳)
’’اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزمان) تم پر گواہ بنیں ۔‘‘
امت وسط کا مطلب:
وسط کا معنی ’’عُدُوْلٌ‘‘ (یہ عادل کی جمع ہے جس کا معنی ہے انصاف پرور، درمیانی راہ چلنے والا) اور ’’خِیَارٌ‘‘ (یہ خیر کی جمع ہے جس کا معنی ہے۔ وہ چیز جس کی ذات میں خوبی اور بہتری ہو اور اس میں ذاتی لذت، ذاتی نفع اور ذاتی خوش بختی ہو)۔ جیسا کہ ایک حدیث میں یہ مضمون آتا ہے۔[1]
امت وسط کی معتدل تصویر اوریہود و نصاریٰ کا افراط و تفریط کی سیاہی سے تاریک چہرہ:
چناں چہ یہ امت ان امتوں کے جو بدترین غلو کی طرف جھک گئیں اور ان امتوں کے درمیان جو ہلاکت آفرین تفریط میں جاگریں ، معتدل امت ہے۔ چناں چہ بعض امتوں نے مخلوقات میں اس قدر غلو کیا کہ ان میں خالق کی صفات اور حقوق کو تسلیم کر لیا جیسے نصاریٰ جنہوں نے حضرت مسیح اور
|