اور تعطیل ہے جس میں انہیں ان کے رب تعالیٰ کے بارے میں اس سوئے ظن اور وہم نے گرایا کہ ان صفات کا باری تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قیام کے عقل میں آنے کی وہی صورت ہے جس طرح یہ صفات مخلوق کی ذات کے ساتھ قائم ہوئی ہیں کسی شاعر نے ایسے بدعقلوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے:
وقصاری امر من او ل ان ظنوا الظنونا
فیقولون علی الــرحمن ما لا یعملو نا
’’ان تاویل پرستوں کا معاملہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں چند گمان ہیں اور یہ رب رحمان کے بارے میں علم کے بغیر اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں ۔‘‘
معطلہ کو جہمیہ کہنے کی وجہ:
معطلہ کو اس فتنہ کے سرخیل جہم بن صفوان ترمذی کی نسبت کرتے ہوئے جھمیہ کہا جاتا ہے۔ پھر اس لفظ کے استعمال میں وسعت ہو گئی اور اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہونے لگا جو رب تعالیٰ کے اسماء و صفات میں سے کسی بات کی نفی کرتا ہے بلکہ یہ لفظ صفات کی نفی کرنے والے سب فرقوں کو شامل ہے جیسے فلاسفہ، معتزلہ اشعریہ اور قرامطہ باطینہ۔
اہل سنت والجماعت کی حق پرستی:
اہل سنت والجماعت ان تمام جہمیہ ور مشبہ ، جو رب تعالیٰ کو اس کی مخلوق اور بندوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ، کے درمیان راہ اعتدال پر ہیں ، رب تعالیٰ کا کلام دونوں فرقوں کے اعتقادات کو رد کرتا ہے چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ: ’’لیس کمثلہ شیء‘‘ مشبھہ کا اور ’’وھو السمیع البصیر‘‘ معطلہ کا رد کرتا ہے۔
اہل حق صفات الٰہی کو کسی قسم کی تمثیل کے بغیر ثابت کرتے ہیں اور اس کی ذات کو مخلوق کے مشابہ ہونے سے تعطیل کا معنی پیدا کیے بغیر منزہ قرار دیتے ہیں چناں چہ انہوں نے تنزیہ اور اثبات کو رب تعالیٰ کی ذات میں جمع کر کے ان دونوں فرقوں کے معتقدات سے نہایت عمدہ عقیدہ اپنایا اور ان فرقوں نے تعطیل و تشبیہ کا اعتقاد رکھ کر جس خطا اور برائی کا ارتکاب کیا اس کو ترک کر دیا۔
شیخ محمد بن عبدالعزیز بن مانع کے رشحاتِ قلم:
شیخ مانع علامہ رحمہ اللہ کی عبارت ’’وھم وسط‘‘ پر حاشیہ لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ: ’’جان لیجیے! کہ لوگوں نے ’’افعالِ عباد‘‘ میں اختلاف کیا ہے کہ آیا رب کو ان پر قدرت ہے یا نہیں ؟ صفوان
|