Maktaba Wahhabi

77 - 238
الْحَبِّ وَالنَّوٰی، مُنزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْآنِ، اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ، اَنْتَ الاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ، وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ، وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوقَکَ شَیْئٌ، وَاَنْتَ البَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَاَغنِنِی عَنِ الْفَقْرِ۔)) [1] ’’اے اللہ! اے ساتوں آسمانوں اور زمین کے رب! اے ہر شے کے رب! اے دانہ اور گٹھلی کو پھاڑ (کر پودا نکالنے)والی ذات! اے تورات، انجیل اور قرآن کو اتارنے والی ذات! میں تجھ سے ہر شر والی چیز سے پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ میں ہے، تو پہلا ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، اور تو پچھلا ہے تیرے بعد کچھ نہیں ، تو ظاہر ہے تجھ سے اوپر کچھ نہیں ، تو باطن ہے تیرے سوا (یا تیرے پیچھے) کچھ نہیں ، میرا قرضہ اتار دے اور مجھے فقر سے بے نیاز کر دے۔‘‘ پس یہ (ان چاروں اسماء کی) ایسی واضح اور جامع تفسیر ہے جو رب تعالیٰ کی پاک ذات کی عظمت کے کمال پر دلالت کرتی اور بتلاتی ہے کہ رب تعالیٰ کی ذات پر ہر اعتبار سے سب چیزوں پر حاوی اور محیط ہے۔ رب تعالیٰ کے لیے احاطہ زمانیہ و مکانیہ دونوں ثابت ہیں : چناں چہ ’’الاوّل والاخر‘‘ میں احاطہ زمانیہ کا اور ’’الظاہر والباطن‘‘ میں احاطہ مکانیہ کا بیان ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا اسم ’’الظاہر‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رب تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات پر بلند ہے اور کوئی چیز اس سے اوپر نہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ ان چاروں اسماء کا مدار ’’احاطہ‘‘ پر ہے۔ چناں چہ رب تعالیٰ کیا اوّلیت و آخریت نے جملہ اوائل و اواخر کا احاطہ کیا ہوا ہے اور اس کی ظاہریت اور باطنیت نے ہر ظاہر و باطن کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ چناں چہ رب تعالیٰ کا نام ’’الاوّل‘‘ اس کے قدیم ہونے اور اس کی ازلیت پر دلالت کرتا ہے، اور ’’الآخر‘‘ اس کے بقا اور ابدیت پر دلالت کرتا ہے، اور ’’الظاہر‘‘ اس کے بلند مرتبہ اور عظمت کو بیان کرتا ہے جب کہ ’’الباطن‘‘ اس کے قرب و معیت پر دلالت کرتا ہے۔
Flag Counter