’’اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اور ایک صحیح حدیث میں آتا ہے: ’’جو اللہ نے چاہا وہ ہو گیا اور جس کو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔‘‘ [1]
۲۔ ارادۂ کونیہ اور شرعیہ میں کوئی تلازم نہیں :
ان دونوں قسم کے ارادوں میں کوئی تلازم نہیں (کہ اگر ایک پایا جائے تو دوسرا بھی ضرور پایا جائے گا) بلکہ دونوں میں سے ہر ایک ارادہ کا ایسی باتوں کے ساتھ تعلق ہے جن کے ساتھ دوسرے ارادہ کا تعلق نہیں ۔ پس ان دونوں ارادوں کے درمیان ’’عموم خصوص من وجہ‘‘[2] کی نسبت ہے۔ چناں چہ ارادہ کونیہ اس اعتبار سے ارادۂ شرعیہ سے عام ہے کہ اس کا تعلق ان چیزوں سے بھی ہے جن کو وہ پسند نہیں کرتا اور وہ اس کو محبوب نہیں ۔ جیسے کفر و معاصی، اس اعتبار سے ارادۂ شرعیہ سے خاص ہے کہ اس کا تعلق کافر کے ایمان لانے یا فاسق کے فرمانبردار بن جانے وغیرہ جیسی باتوں کے ساتھ نہیں ۔
جب کہ ارادۂ شرعیہ اس اعتبار سے کونیہ سے عام ہے اس کا تعلق تمام مامورات سے ہے خواہ وہ واقع ہوں یا غیر واقع اور اس اعتبار سے ارادۂ کونیہ سے خاص ہے کہ بسا اوقات جو ارادۂ کونیہ کے ساتھ واقع ہوتی ہے وہ غیر مامور ہوتی ہے۔
ارادۂ کونیہ و شرعیہ کے اجتماع و افتراق کے مقامات:
خلاصہ یہ نکلا کہ کبھی تو یہ دونوں ارادے ایک مومن کے ایمان لانے اور فرمانبردار کے سراپا تسلیم و اطاعت بننے جیسی مثالوں کی طرح اکٹھے اور جمع ہو جاتے ہیں ، جب کہ کافر کے کفر کرنے اور گنہگار کے ارتکابِ معاصی میں ارادۂ کونیہ (ارادۂ شرعیہ سے) جدا ہو جاتا ہے۔ جب کہ کافر کے ایمان لانے اور گنہگار کے فرمانبردار جیسی مثالوں میں ارادۂ شرعیہ (ارادۂ کونیہ سے) الگ ہو جاتا ہے۔
_________________________________________________
اصل متن :… وقولہ: ﴿وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ﴾ (البقرۃ: ۲۵۳)
’’اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
|