Maktaba Wahhabi

184 - 238
۱۔ میم کی تشدید کے ساتھ ’’لَا تَضَامُّوْن‘‘ (اس وقت یہ فعل کی ہفت اقسام میں سے ساتویں قسم ’’مضاعف الثلاثی‘‘ ہو گا جس کا عین اور لام کلمہ ایک جنس سے ہوتا ہے جیسے یہاں کہ یہاں عین اور لام کلمہ دونوں ’’میم‘‘ ہیں ) اور اس کا مصدر ’’اَلتَّضَامُّ‘‘ ہے (جو باب تَفَاعُل ہے) اور اس کا معنی ہے ’’تَزَاحُم‘‘ (ایک دوسرے کو دھکیلنا، ایک دوسرے کو دبانا، تنگی میں ڈالنا، ایک دوسرے سے ٹکرانا اور کھوے سے کھوا ملنا) اور ’’تَلَاصُق‘‘ (باہم ملنا اور جڑنا اور ایک دوسرے کے ساتھ چپیدہ ہونا) ’’تضامون‘‘ کی تا پر فتحہ اور ضمہ دونوں پڑھ سکتے ہیں (یعنی اس کو معروف کا صیغہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور مجہول کا بھی) کیوں کہ اصل میں یہ ’’تتضامون‘‘ تھا (کیوں کہ باب تفاعل کے فعل مضارع میں دوتا آتی ہیں ایک باب کی دوسری مضارع کی) پھر تحفیف کی غرض سے دو میں سے ایک تا کو حذف کر دیا گیا۔ (باقی تضامون رہ گیا، اب اس کو معروف کے ساتھ تَضَامُّوْن اور مجہول کے ساتھ تُضَامُّوْنَ دونوں پڑھ سکتے ہیں ۔) ۲۔ میم کی تخفیف کے ساتھ ’’لا تَضامُوْنَ ‘‘جس کا مصدر ’’اَلَّضِیْمُ‘‘ ہے (اس وقت یہ فعل کی ہفت اقسام میں سے چوتھی قسم ’’اجوف الثلاثی‘‘ کی دوسری قسم اجوف یائی ہو گا اور یہ باب سمع یسمع سے خَافَ یَخاَفُ کی طرح لَا تَخَافُوْنَ کے وزن پر ہوگا) جس کا معنی ہے ظلم کرنا، نا انصافی کرنا۔ مطلب یہ ہوگا کہ رب تعالیٰ کی زیارت کرتے ہوئے نہ تو تمہارے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی اور نہ تمہیں کوئی نقصان ہی پہنچے گا۔ نماز فجر اور عصر کی بالخصوص نگرانی کیجیے! اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر اور عصر کو اہتمام کے ساتھ ادا کرنے کی ترغیب دے کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو ان دونوں نمازوں کو با جماعت ادا کرنے کا اہتمام کرے گا، وہ اس کامل ترین نعمت (یعنی رؤیت باری تعالیٰ سے متمتع ہونے) کو حاصل کرے جس کے سامنے ہر نعمت ہیچ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں نمازوں کی خاص طور پر تاکید فرمائی ہے جیسا کہ دوسری احادیث بھی اس کی تاکید پر دلالت کرتی ہیں ۔ جیسے فرمایا: ’’تمہارے درمیان دن اور رات کے فرشتے باری باری آتے (جاتے) رہتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ[1]
Flag Counter