Maktaba Wahhabi

179 - 238
بات کی دلیل ہے کہ رب تعالیٰ کا وصف علو اس کا سب سے بڑا وصف ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باندی سے رب تعالیٰ کے متعلق خاص یہی سوال کیا ناکہ کوئی دوسرا۔ دوسرے اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ اس بات پر ایمان رکھنا کہ رب تعالیٰ کو ہر اعتبار سے مطلق علو حاصل ہے، ایمان کا سب سے بڑا اصول ہے۔ اس کا منکر یقینا صحیح ایمان کی نعمت سے محروم ہے۔ (رب تعالیٰ کی صفت علو کی) نفی کرنے والے ان احمق معطلہ پر کیوں نہ تعجب ہو جو بزعم خویش رسول اللہ سے بڑھ کر اللہ کو جاننے والے ہیں ، جو رب تعالیٰ کی ذات کے متعلق لفظ ’’این‘‘ کے استعمال کی نفی کرتے ہیں حالانکہ یہ بعینہ وہی لفظ ہے جس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دوسرے سے سوال کرتے ہوئے استعمال فرمایا جیسا کہ اس حدیث میں ہے اور ایک مرتبہ اس لفظ کے ذریعے سوال کرنے والے کو، جب اس نے یہ پوچھا: ’’این ربنا؟‘‘ (ہمارا رب کہاں ہے) جو اب عنایت فرمایا (کہ وہ آسمان ہیں ہے)۔ ایمان کا بلند ترین مرتبہ مقام احسان و مراقبہ ہے: حدیث نمبر ۱۱ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ افضل ترین ایمان مقام احسان و مراقبہ ہے۔اس کی تفسیر یہ ہے کہ بندہ رب تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے گویا کہ اسے دیکھ رہا ہے، اور اس کا یقین ہو کہ وہ اس کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں بھی ہے۔ پس وہ جو بات بھی کرے گا جو کام بھی کرے گا، جس بات میں بھی لگے گا مگر یہ کہ رب تعالیٰ اس کا نگران ہے اور اس کی ہر بات پر مطلع ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ﴾ (یونس: ۶۱) ’’اور تم جس حال میں ہوتے ہو یا قرآن میں سے کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی (اور) کام کرتے ہو، جس میں مصروف ہوتے ہو تو ہم تمہارے سامنے ہوتے ہیں ۔‘‘ رب تعالیٰ کی معیت کا استحضار گناہوں میں لگنے کے لیے باعث شرم و عار ہے: بے شک جب بندے کو اپنے جملہ احوال میں رب تعالیٰ کی ذات کا استحضار نصیب ہو گا تو اسے اس بات سے شرم آئے گی کہ اللہ اسے اس جگہ دیکھے جہاں (جانے) سے اس نے منع کر رکھا ہے اور وہاں نہ پائے جہاں (ہونے کا) اسے حکم دے رکھا ہے کہ یہ استحضار اسے ظاہر و باطن میں
Flag Counter