Maktaba Wahhabi

172 - 238
رب تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کیوں کر؟ یہ بات واقعی قابل تعجب ہے کہ بندے رب تعالیٰ کی رحمت سے کیونکر مایوس ہوتے ہیں جب کہ اس کی رحمت ہر چیز پر محیط ہے اور اس کی رحمت کے حصول کے اسباب شمار قطار سے باہر ہیں کہ بندوں کی ضروریات اور حاجات بھی اس کی رحمت کا ایک سبب ہیں ، اسی طرح بارش برسنے کی دعا کرنا اور اللہ سے اس کی امید رکھنا بھی اس کی رحمت کے اترنے کا ایک (قوی) سبب ہے۔ تنگی کے ساتھ آسانی ہے: رب تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے بارے میں یہ سنت ہے کہ تکلیف کے بعد کشادگی اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے اور یہ کہ تنگی اور سختی ہمیشہ نہیں رہتی (بالآخر دن بدلتے ہیں ) اور جب رب تعالیٰ کی اس سنت کے ساتھ (بندے کی طرف سے) بھرپور (الحاح وزاری) تضرع و ابتہال، دعا والتجاء اور اس کے فضل کی امید بھی مل جائے تو رب تعالیٰ اپنی رحمت کے وہ خزانے کھول دیتا ہے جن کا کسی کے دل پر خیال تک نہیں گزرا ہوتا۔ مذکورہ حدیث نمبر ۳ کے چند الفاظ کی لغوی تحقیقات: ۱۔ اَلْقُنُوْطُ: یہ ’’قَنَطَ یَقْنِطُ‘‘ کا مصدر ہے اور اس کا معنی ہے رب تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ اسی معنی میں یہ آیت کریمہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ﴾ (الحجر: ۵۶) ’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے۔‘‘ ۲۔ خَیْرِہِ: خیر کا معنی رب تعالیٰ کا فضل وکرم اور اس کی رحمت ہے اور بعض روایات میں ’’خَیْرٌ‘‘ کی جگہ ’’غِیْر‘‘ کا لفظ آتا ہے جو ’’غَیَّرْتُ الشَّیْئَ فَتَغَیَّرَ‘‘ سے اسم مصدر ہے۔ یعنی ’’میں نے اس شی کو بدلا تو وہ بدل گئی‘‘ اور اس کا معنی ہے (زمانہ کے احوال و حوادث ) اور حالت کا متغیر ہونا اور درستی سے بگاڑ کی طرف منتقل ہونا۔ جیسا کہ حدیث استسقاء میں آتا ہے۔ ’’مَنْ یَکُفْر بِاللّٰہِ یَلْقَ الْغِیْرَ‘‘ ’’جو رب تعالیٰ کا انکار کرے گا وہ زمانے کے حوادث دیکھے گا۔‘‘[1] یعنی اس کا حال بگڑتا چلا جائے گا۔ ۳۔ آزلین قٰنطین: یہ دونوں حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں اور یہ ’’الیکم‘‘ میں جمع مذکر حاضر کی مجرور متصل کی ضمیر سے حال ہیں ۔ اور ’’آزلین‘‘ یہ ’’آزل‘‘ اسم فاعل کی جمع ہے جو
Flag Counter