کلامِ الٰہی کی قطعیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ صدق اور رتبہ علم کا بیان:
پس کلام الٰہی کے لیے یہ تینوں امور جمع ہیں (کہ رب تعالیٰ کا کلام غایت علم کے ساتھ ہے جس میں کذب بیانی یا حق پوشی کا شائبہ تک نہیں اور وہ وضاحت و بیان میں کمال کے درجہ کو پہنچا ہوا ہے اور یہی وہ تین بنیادی باتیں ہیں جو کامل ترین طریق کے ساتھ دلالت کرنے اور دوسروں کو فہمائش کرنے کا ذریعہ ہیں ۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کے بارے میں خلقِ اللہ کو مطلع کرنا چاہتے ہیں اس کا ساری مخلوق سے بڑھ کر علم رکھنے والے اور اس کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کرنے کی کامل ترین قدرت رکھنے والے اور خلقِ اللہ کی سب سے بڑھ کر خیرخواہی اور ان کی ہدایت کی حرص رکھنے والے ہیں ، لہٰذا یہ بات ممکن نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں کسی قسم کا نقص اور کمی پائی جائے۔ بخلاف دوسروں کے کلام کے کہ ان میں ان تین باتوں میں سے کسی ایک میں نقص اور کمی ضرور پائی جاتی ہے۔ پس یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں کہ کسی کے کلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے برابر قرار دیا جا سکے۔ چہ جائیکہ کلام رسالت سے رخ موڑ کر دوسروں کے کلام کی طرف التفات کرنے کی بھی گنجائش ہو؟ بے شک یہ گمراہی کی انتہاء اور رسوائی کی حد ہوگی۔
_________________________________________________
اصل متن :… ولہذا قال: ﴿سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَo وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَo وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الصافات: ۱۸۰ ۔ ۱۸۲)
اسی لیے رب تعالیٰ نے (اپنے بارے میں ) ارشاد فرمایا: ’’یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں ، تمہارا پروردگار، جو صاحبِ عزت ہے، اس سے پاک ہے اور پیغمبروں پر سلام اور سب کی تعریف اللہ رب العالمین کو (سزاوار) ہے۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
اللہ اور اس کے رسول کے کلام کے کامل ترین ہونے اور ہر قسم کی کمی اور نقص سے پاک ہونے کی دلیل کا بیان:
’’ولہذا قال‘‘ سے لے کر آخر تک علامہ گزشتہ مذکورہ کلام کی علت بیان کر رہے ہیں (اس لحاظ سے یہ لام ’’تعلیلیہ‘‘ ہوا کہ) اللہ اور اس کے رسول کا کلام صدق میں کامل ترین، بیان اور
|