کرو) جیسے کفر کے ہوتے ہوئے کوئی نیکی مفید نہیں ۔ ان کا گمان ہے کہ ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے چاہے زبان سے ایمان کا اقرار اور نطق سے نہ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے ان کا نام ’’ارجاء‘‘ یعنی موخر کرنے کی طرف نسبت کر کے مرجیئہ رکھا گیا ہے کیوں کہ یہ لوگ اعمال کو ایمان سے مؤخر کرتے ہیں ۔ یہ بے بات بے غیار ہے کہ ارجاء اس معنی میں صریح کفر ہے جو آدمی کو ملت اسلامیہ سے نکال دیتا ہے، کیوں کہ ایمان میں زبان کے اقرار، دل کے اعتقاد اور احکام پر عمل کا پایا جانا ضروری ہے۔ لہٰذا جب ان تین باتوں میں ایک بات بھی نہ پائی جائے گی تو بندہ مومن نہ کہلائے گا۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ حضرات کو مرجۂ کہنا بے جا کا الزام ہے:
بعض لوگوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کو فی آئمہ کی طرف ارجاء کی نسبت کی ہے (یہ وہ ارجاء نہیں جس کے ماننے والے گمراہ اور کافر ہیں بلکہ) وہ ارجاء ان حضرات کا یہ قول ہے کہ ’’اعمال‘‘ ایمان میں سے نہیں البتہ اس قول کے ساتھ ساتھ وہ اس بات میں اہل سنت و الجماعت کے ہم نوا اور موافق ہیں کہ رب تعالیٰ کبائر کے مرتکبین میں سے جس کو چاہے عذاب دے گا، پھر انہیں شفاعت وغیرہ کے ذریعے جہنم سے نکال دے گا۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایمان کا زبان سے اقرار کرنا واجب ہے اور یہ کہ اگر فرائض و واجبات کو ترک کیا جائے تو بندہ مذمت و سرزنش، عتاب و عقاب اور عذاب و سزا کا مستحق و سزاوار ہوتاہے۔
اگرچہ ان حضرات کا یہ قول ارجاء کی وہ قسم ہے جو کفر نہیں لیکن ارکان و اعمال کو ایمان کی حقیقت سے نکالنے کی بنا پر باطل اور نو ایجاد کردہ قول ہے۔
فرقہ و عیدیہ کی بے دیدیاں :
یہ (بے دید، شوخ چشم اور بے باک) فرقہ اس بات کا قائل ہے کہ رب تعالیٰ پر عقلاً یہ بات واجب ہے کہ وہ نافرمان کو عذاب دے جیسے اس پر یہ واجب ہے کہ وہ تابع فرمان کو ثواب دے۔ لہٰذا ان کے نزدیک کبیرہ کا جو مرتکب توبہ کیے بغیر گناہ کو مان جائے اللہ اس کی بخشش نہ کرے گا۔ بلاشبہ ان کا مذہب باطل اور کتاب و سنت کے مخالف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾(النساء: ۴۸)
’’اللہ اس گناہ کو تو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔‘‘
|