شرح:…
رب تعالیٰ کے لیے ارادۂ و مشیئت ثابت ہے:
یہ (آیت اور آئندہ مذکورہ سورۂ بقرہ، سورۂ مائدہ اور سورۂ انعام کی) آیات رب تعالیٰ کی دو صفات کے اثبات پر دلالت کرتی ہیں ۔ ارادہ اور مشیئت، اور اس باب میں نصوص اس قدر ہیں کہ ان کا شمار دشوار ہے۔
ارادۂ الٰہی کی بابت اشاعرہ اور معتزلہ کی کج تفسیرات:
اشاعرہ رب تعالیٰ کے لیے فقط ایک ہی ارادہ ثابت کرتے ہیں جو قدیم ہے اور ازل سے ہے اور اس کا تعلق مرادات (جن چیزوں کا ارادہ کیا گیا ہے) سے ازل میں ہے۔ پس (ارادہ کی اس تفسیر کی بنا پر) انہیں یہ بات لازم آتی ہے کہ مراد (یعنی جس چیز کا ارادہ کیا گیا ہے) ارادہ سے مختلف ہو (کہ ایک چیز کو ارادہ کے بغیر مراد کر لیا گیا اور اس کا باطل ہونا بھی ہے)
رہے معتزلہ تو وہ اپنی اس سوچ پر ہیں کہ وہ صفاتِ الٰہی کی نفی کرتے ہیں ۔ چناں چہ وہ رب تعالیٰ کے لیے ارادہ (سرے سے) ثابت (ہی) نہیں کرتے۔ ان کی تفسیر یہ ہے کہ: ’’رب تعالیٰ حادث ارادہ کے ساتھ ارادہ کرتا ہے (یعنی اس کا ارادہ قدیم نہیں بلکہ حادث ہے) اور ایسے ارادہ کے ساتھ ارادہ کرتا ہے جس کا کوئی محل نہیں (یعنی اس ارادہ کا کرنے والا کوئی نہیں )۔ پس (اس بدترین باطل تفسیر کی بنا پر) انہیں یہ بات لازم آئی کہ ایک صفت از خود قائم ہو (ناکہ کسی موصوف کے ساتھ) اور یقینا یہ بدترین (اور گھناؤنا ترین) باطل ہے۔
ارادۂ الٰہی کی صحیح تفسیر اور ارادہ کی اقسام:
اہل حق (یعنی اہل سنت والجماعت، اِرادہ کی تفسیر کرتے ہوئے) یہ کہتے ہیں کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ ارادۂ کونیہ:
یہ مشیئت کے مترادف ہے اور ان دونوں کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جس کے کرنے کو یا اس کے پیدا کرنے کو اللہ چاہے۔ پس جب رب تعالیٰ کسی بات کا ارادہ کرتے ہیں اور اس کو چاہتے ہیں تو وہ شے اس کے ارادہ کرنے کے فوراً بعد (اس طرح) ہو جاتی ہے (جس طرح اس نے چاہا تھا) جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اِِنَّمَآ اَمْرُہُ اِِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ (یٰس: ۸۲)
|