Maktaba Wahhabi

199 - 238
’’اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں ۔‘‘ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن و سنت میں رب تعالیٰ کی قربت ومعیت کا جو ذکر ہے اس میں اور جس علویت اور فوقیت کا ذکر آتا ہے، اس میں کوئی منافاۃ نہیں کہ یہ سب کی سب اس کی صفات ہیں جو اس کی شایان شان ہیں کہ کوئی شی بھی اس پاک ذات کی طرح نہیں ۔ قرآن کے ’’منزل من اللہ‘‘ ہونے پر ایمان لانا، یہ رب تعالیٰ پر ایمان لانے میں سے ہے: علامہ رحمہ اللہ کی عبارت ’’ومن الایمان باللّٰه وکتبہ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ رحمہ اللہ نے قرآن کے ’’کلام اللہ‘‘ ہونے پر ایمان لانے کو اللہ پر ایمان لانے میں داخل کیا ہے کیوں کہ یہ رب تعالیٰ کی ایک صفت ہے جس پر ایمان لائے بغیر رب تعالیٰ پر ایمان لانا پورا نہ ہو گا کیوں کہ کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے۔ رب تعالیٰ اس صفت کے ساتھ موصوف ہے کہ وہ جب چاہے کلام فرماتا ہے اور وہ ہمیشہ سے متکلم تھا اور رہے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کلام الٰہی کی نوع تو قدیم ہے جب کہ اس کے افراد و آحاد اس کی حکمت و مشیئت کے تحت وقتاً فوقتاً واقع ہوتے رہیں گے۔ لفظ ’’کلام اللہ‘‘ کی نحوی اور معنوی ترکیب: پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ ’’کلام اللہ‘‘ میں صفت کی موصوف کی طرف اضافت ہے جو اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ ’’کلام‘‘ رب تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور وہ الفاظ و معانی کے ساتھ اپنی آواز سے حقیقتاً کلام کرتا ہے۔ کلام الٰہی کے متعلق چند گمراہ فرقوں کے نظریات: جن معتزلہ کے گمان میں قرآن مخلوق ہے یقینا وہ رب تعالیٰ پر بہت بڑی تہمت لگا رہے ہیں ان معتزلہ نے رب تعالیٰ کے اس وصف کی نفی کر کے اس کی مخلوق کا وصف بنا لیا ہے۔ دوسرے ان لوگوں نے لغت پر بھی ظلم ڈھایا ہے کیوں کہ کسی لغت میں متکلم کا معنی ’’خالق کلام‘‘ نہیں لکھا۔ اسی طرح کلابیہ کا یہ کہنا کہ ہمارے پاس موجود قرآن یہ کلام اللہ کی حکایت ہے، یہ اس کی عبارت ہے جیسا اشعریہ کا کہنا ہے تو دراصل ان لوگوں نے معتزلہ کے نصف قول کو لیا ہے کیوں کہ وہ قرآن کے الفاظ و معانی میں فرق کرتے ہیں ۔ چناں چہ وہ الفاظ کو مخلوق اور معانی کو رب تعالیٰ کی صفت قدیمہ سے تعبیر کرتے ہں ۔ اس باب میں وہ نصاریٰ کے اس قول کے مشابہ ہیں کہ لاھوت
Flag Counter