Maktaba Wahhabi

60 - 238
کہ جب رب تعالیٰ اپنی ذات اور تمام مخلوق کے بارے میں سے زیادہ جانتا ہے اور بات میں سب سے بڑھ کر سچا اور بہتر ترین بات کرنے والا ہے، اور اس کے پیغمبر رب تعالیٰ کے بارے میں کسی بھی بات کی خبر دینے میں سچے اور رب تعالیٰ کی بابت کذب بیانی اور اس پر افترا پردازی سے اور اسے اور اس کے بارے میں کسی خلافِ واقع بات کی خبر دینے سے محفوظ اور معصوم ہیں تو اب صفات کی نفی اور اثبات کے باب میں اسی بات کی طرف رجوع کرنا واجب ہوگا جو خود اللہ نے بیان کی ہے اور جس کو اس کے اس رسول نے بتلایا ہے جو اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ علم کے مالک ہیں ۔ ایسے ہی رب تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھنے والے ان لوگوں کے اقوال کو ترک کرنا بھی واجب ہوگا جو ایسی باتیں کہتے ہیں جن کا انہیں علم تک نہیں ۔ کلام کے صرف اپنے مرادی معانی پر ہی دلالت کرنے کے دلائل کا بیان: (مذکورہ بالا مضمون کا تفصیلی) بیان یہ ہے کہ کوئی بھی کلام صرف اپنے مرادی معانی پر ہی بند رہتا ہے، اس کی تین وجوہات ہیں : ٭ یاتو متکلم جاہل ہوتا ہے کہ اسے جو بات وہ کر رہا ہوتا ہے اس کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا۔ ٭ یا پھر اسے فصاحت و بلاغت سے حصہ نصیب نہیں ہوتا۔ چناں چہ وہ اپنی بات کو کھول کر (اس کے مرادی معانی کو) بیان کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ ٭ یا پھر دھوکا باز اور ملمع سازی کے ذریعے حق پوشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ (کہ یہ تین اسباب ایسے ہیں جو کلام کی مراد تک پہنچنے کے آڑے آتے ہیں ، مخلوق میں ان تینوں اسباب کے پائے جانے کا سو فیصد احتمال ہے، اس لیے مخلوق کے بیان میں قطعیت کا پایا جانا ظنی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو اپنی سمجھ سے رب تعالیٰ کی صفت بیان کرنے کی جسارت کرتا ہے وہ ان تین اسباب سے خالی نہیں ہوتی، اسی لیے مردود اور قابلِ رد ہوتی ہے) جب کہ کتاب و سنت کی نصوص ہر اعتبار سے ان تینوں اسباب جہل و ظلم سے بری (خالی اور پاک) ہیں ۔ پس اللہ اور اس کے رسول کا ہر کلام وضاحت و صراحت کی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ جیسا کہ صدق و صداقت میں اور واقع کے عین مطابق ہونے میں (بھی اللہ اور اس کے رسول کا کلام) نہایت بلند مثال ہیں ، کیوں کہ یہ کلام جملہ خارجی نسبتوں کے اعتبار سے کمال ترین علم کے ساتھ صادر ہوا ہے، اسی طرح اس کلام کا صدور حد درجہ شفقت، خیر خواہی اور مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کی از حد حرص کے ساتھ صادر ہوا ہے۔
Flag Counter