حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہل سنت کا بغض و عناد اور کینہ و حسد سے پاک راستہ:
اہل سنت روافض کے غالیانہ طریق سے بھی بری ہیں جو انہوں نے حضرت علی اور اہل بیت کے بارے میں اپنا رکھا ہے کہ ان کے ساتھ تو محبت و عقیدت میں بے حد غلو سے کام لیتے ہیں جب کہ دوسرے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ کے بغض و عناد رکھتے ہیں ، ان پر برملا سب و شتم کرتے ہیں اور ان کی تکفیر کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کا نام ’’روافض‘‘ سب سے پہلے زید بن علی نے رکھا کیوں کہ جب زید بن علی نے ان سے بیعت کرنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اس بات کی شرط رکھ دی کہ اگر آپ حضرات شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں تو ہم بیعت کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ تو زید بن علی نے یہ کہہ کر ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا کہ ’’رفضتمونی‘‘ (تم لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا، ٹھکرا دیا) پس اس دن سے یہ (بدعقیدہ) لوگ ’’رافضی‘‘ (ٹھکرانے والے اور اکابر صحابہ کو چھوڑنے والے) کہلاتے ہیں ۔ پھر آگے ان میں بھی متعدد فرقے ہیں کہ ان میں سے بعض تو (رفض میں ) بے حد غالی ہیں اور بعض ذرا کم درجے کے رافض ہیں ۔
اسی طرح اہل سنت ناصبیوں کے طریق سے بھی الگ ہیں (جو دراصل خارجی ہیں ) جنہوں نے اہل بیت نبوت کو اپنی عداوت اور دشمنی کا نشانہ اور آماج گاہ بنا لیا تھا۔ اس بغض و عدات کے متعدد اسباب اور سیاسی امور تھے جو معروف ہیں مگر آج رب کی دھرتی ان کے وجود سے پاک ہے۔
مشاجرات صحابہ سے لب و گوش کی بندش اہل سنت کا طریق ہے:
اہل سنت حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں ہونے والے نزاعات پر بھی لب کشائی نہیں کرتے۔ خصوصاً وہ نزاعات جو شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی، طلحہ اور زیبر رضی اللہ عنہم میں ہوئے۔ اسی طرح جو نزاعات شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی، امیر معاویہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوئے (کہ ان کے بارے میں بھی کچھ کہنے سے سخت گریز اور اجتناب کرتے ہیں )
تاریخی روایات کباڑ کا ڈھیر ہیں :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں تاریخی روایات میں جن عیوب اور برائیوں کا تذکرہ ہے، اہل سنت (ان روایات کو کباڑ کا ڈھیر سمجھتے ہیں اور ان) کے نزدیک اکثر روایات دورغ بے فروغ ہیں یا ان میں بے حد تحریفات کردی گئی ہیں (اس لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بابت ازحد ناقابل
|