رب تعالیٰ کے لیے علو اور فوقیت کا اثبات:
حدیث نمبر ۷: ’’ربنا اللّٰه الذی فی السماء…‘‘ اس باب میں صریح ہے کہ رب تعالیٰ علو (بلندی) اور فوقیت (سب سے اوپر ہونا) ثابت ہے۔ اور یہ حدیث اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرح ہے۔
﴿ئَ اَمِنتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ﴾ (الملک: ۱۶)
’’کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بے خوف ہو۔‘‘
آسمان رب تعالیٰ کے لیے ظرف نہیں :
پہلے ہم بتلا چکے ہیں کہ ان نصوص سے یہ مراد نہیں کہ آسمان رب تعالیٰ کے لیے ظرف ہے جس نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے (جیسے ظرف نے مظروف کا احاطہ کیا ہوتا ہے) بلکہ یہاں ’’فی‘‘ ’’علی‘‘ کے معنی میں ہے جیسا کہ متعدد علماء اور اصحابِ لغت کا قول ہے۔ اور ’’فی‘‘ متعدد مقامات پر ’’علٰی‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَّ لَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ﴾ (طہٰ: ۷۱)
’’اور میں تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوا دوں گا۔‘‘
(کہ یہاں ’’فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ‘‘ ’’علٰی جُذُوْعِ النَّخْلِ‘‘ کے معنی میں ہے۔)
یا پھر آسمان سے مراد جہت علو ہے۔ غرض دونوں میں سے جو بھی مطلب ہو یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ رب تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بلند ہے۔
توسل الی اللہ کو رب تعالیٰ کی حمد و ثناء اور پاکی بیان کر کے حاصل کیجیے!
اس حدیث کو ’’حدیث رقیہ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ اس حدیث میں اس بات کو ذکر کیا گیا ہے کہ بندے رب تعالیٰ کی حمد و ثناء، اس کی ربوبیت و الہٰیت اس کے اسم کی تقدیس، اپنی مخلوق پر اس کی بلندی و برتری اور اس کے شرعی اور تقدیری امر کے عموم کو بیان کر کے رب تعالیٰ کا توسل اختیار کریں ۔ اسی طرح اس کی اس رحمت کے ذریعے توسل کریں جو سب آسمان والوں کو شامل ہے کہ وہ اپنی رحمت کا ایک حصہ زمین والوں کو بھی مرحمت فرمائے۔ پھر اپنے گناہوں اور غلطیوں کو معاف کر دینے کے ذریعے توسل کرے، پھر پاکباز لوگوں کے لیے اس کی اس ربوبیت خاصہ کے ذریعے توسل کرے جس کے آثار میں سے یہ بات ہے کہ رب تعالیٰ انہیں دین و دنیا کی ظاہری و باطن ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال کر دے گا۔
|