شرح:…
رب تعالیٰ کو زمین و آسمان کے ذرّے ذرّے کی خبر ہے:
ان آیات میں رب تعالیٰ اپنے علم کے متعلق بعض باتوں کو ذکر کیا تاکہ اپنے علم کے اس شمول و عموم اور احاطہ پر دلالت کرے جس تک مخلوق کے علوم پہنچنے سے قاصر ہیں ۔ چناں چہ رب تعالیٰ نے اس بات کو ذکر کیا کہ وہ زمین میں داخل ہونے والی ہر چیز کو جانتا ہے، وہ دانوں ، بیجوں ، پانیوں ، کیڑوں مکوڑوں میں سے سب کو جانتا ہے جو زمین داخل ہوتے ہیں اور وہ زمین میں پائی جانے والی تمام کانوں کو جانتا ہے، اور اس طرح وہ زمین سے نکلنے والے درختوں ، پھوٹنے والے، اگنے والی، کھیتوں اور مفید دھاتوں کو جانتا ہے، اور آسمانوں سے اترنے والی بارشوں ، برفوں اولوں ، کڑکنے والی بجلیوں اور (رب تعالیٰ کے مختلف امور و اوامر لے کر اترنے والے) فرشتوں کو، اور اس طرح جو فرشتے اور بندوں کے اعمال وغیرہ آسمانوں میں اوپر چڑھتے ہیں اور جو پرندے پر پھیلا کر فضاؤں میں اڑتے ہیں ، وہ ان سب کو جانتا ہے۔
_________________________________________________
وقولہ: ﴿وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الانعام: ۵۹)
’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتابِ روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
’’مفاتح الغیب‘‘ کی لغوی اور صرفی تحقیق اور اس کی تفسیر میں صحیح تر قول کا بیان:
(سورۂ انعام کی اس آیت میں بھی علامہ رحمہ اللہ نے رب تعالیٰ کی صفت علم کو ذکر کیا ہے) اور اس میں بتلایا ہے کہ: ’’غیب کنجیاں اللہ کے پاس ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
’’مفاتح الغیب‘‘ (کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں ) ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رب تعالیٰ کے خزانے ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ راستے اور واسطے ہیں جن کے ذریعے اس کی ذات (کی معرفت اور اس کے قرب) تک پہنچا جاتا ہے۔
|