اس کاوجود ثابت اور موکدہ مقرر ہے)۔ پس واؤ کے ذریعے پیدا ہونے والی تاکید نے انکار و استبعاد کے اس وہم کو دور کر دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوتُ﴾ (الفرقان: ۵۸)
’’اور اس (اللہ ) زندہ پر بھروسہ رکھو جو (کبھی) نہیں مرے گا۔‘‘
رب تعالیٰ کی حیات کامل ترین حیات ہے:
یہ آیت بھی ان آیات میں سے ایک ہے جس کو مصنف رحمہ اللہ رب تعالیٰ کے بعض اسماء و صفات کو ثابت کرنے کے لیے لائے ہیں ۔ پس پہلی آیت میں رب تعالیٰ کے اسم ’’حيّ‘‘ کو ثابت کیا گیا ہے۔ یہ نام رب تعالیٰ سے اس موت کے سلب ہونے کو بیان کر رہا ہے جو ’’حیات‘‘ کی ضد ہے۔
ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ رب تعالیٰ ایسی حیات کے ساتھ متصف ہیں جو اس کی ذات کی صفتِ لازمہ ہے۔ لہٰذا رب تعالیٰ کی ذات کو کبھی بھی موت یا زوال لاحق نہ ہوگا اور یہ کہ اس کی حیات کامل ترین اور اہم ترین ہے، اور ذاتِ باری تعالیٰ کے ایسی کامل ترین حیات کا ثبوت ہر اس کمال کے ثبوت کو مستلزم ہے جس کی نفی کمالِ حیات کے متضاد ہو۔ (یعنی رب تعالیٰ کی ذات کے لیے ہر وہ کمال ثابت ہے جس کا عدم اس کی حیات کے کمال کے متضاد و متنافی ہو)۔
_________________________________________________
اصل متن :… وقولہ: ﴿وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ﴾ (الزخرف: ۸۴)
وقولہ: ﴿الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ﴾ (التحریم: ۳)
’’اور وہ حکمت والا جاننے والا ہے۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
رب تعالیٰ کی صفت علم کی تشریح و تفسیر:
مذکورہ آیات میں رب تعالیٰ کی صفت علم اور لفظِ علم کے اشتقاق کو بیان کیا گیا ہے، جیسے ’’علیم‘‘ جو صیغہ صفت ہے، اس کا ذکر سورۂ زخرف اورسورۂ تحریم کی مذکورہ آیات میں ہے۔ ’’یعلم‘‘ جو فعلِ مضارع کا صیغہ ہے، اس کو سورۂ حدید اور سورۂ انعام کی مذکورہ آیات میں ذکر کیا گیا ہے، اور ’’احاطہ بکل شیء علما‘‘ میں ’’علم‘‘ مصدر، جس کو سورۂ فصلت اور سورۂ طلاق میں ذکر کیا گیا ہے۔
غرض علم رب تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کے ذریعے اس نے تمام معلومات کا اس طرح احاطہ
|