Maktaba Wahhabi

74 - 238
علم کی تفسیر: ایک قول یہ ہے کہ: (یہاں ) ’’علم‘‘ بمعنی ’’معلوم‘‘ ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ علم سے مراد اس کے اسماء و صفات کا علم ہے (پہلی تفسیر کی بنا پر ’’علم‘‘ مصدر اسم مفعول کے معنی میں ہے جو اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے جب کہ دوسری تفسیر کی بنا پر علم مصدر اپنے مفعول بہ محذوف کی طرف مضاف ہے)۔ مخلوق اتنا ہی جانتی ہے جتنا اللہ بتا دے: البتہ جتنا رب تعالیٰ چاہے اپنی مخلوق کو (اپنی معلومات میں سے) بتا دیتا ہے، اور اس کے بنیادی طور پر دو ذرائع ہیں : (۱)… اپنے رسولوں کی زبان سے ۔ (۲)… یا پھر بحث و تحقیق، غور و فکر، نظر و استدلال اور تجربہ و استنتاج کے واسطے سے۔ کرسی کی تفسیر اور اللہ تعالیٰ کے ملک کی وسعت و عظمت کا بیان: اس کے بعد رب تعالیٰ نے ایسی بات ذکر فرمائی جو اس کے ملک اور سلطان کی وسعت و عظمت پر دلالت کرتی ہے، چناں چہ فرمایا کہ: اس کی کرسی زمینوں اور آسمانوں سب سے وسیع (اور ان سب پر حاوی ہے)۔ کرسی کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ عرش کے علاوہ الگ سے ایک چیز ہے جو رب تعالیٰ کے قدموں کی جگہ ہے اور اس کی حیثیت عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک وسیع میدان میں ایک چھلا (کڑا) پڑا ہو۔ کرسی کی جو تفسیر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ذکر کی ہے کہ: اس سے مراد علم ہے، صحیح نہیں کیوں کہ یہ تفسیر آیت میں (علم کے) تکرار تک پہنچاتی ہے (کہ چار کلمات میں پہلے ہی علم کا ذکر ہوا ہے، اب اگر علم کا ذکر دوبارہ ہو تو یہ تکرار ہوگا جو بے معنی ہے)۔ رب تعالیٰ کسی بات سے عاجز نہیں ، کوئی شے اس کو تھکا یا ہرا نہیں سکتی: اس کے بعد رب تعالیٰ نے اپنی قدرت کی عظمت اور کمالِ قدرت کو بتلایا، چناں چہ فرمایا: ﴿وَ لَا یَؤُدُہٗ حِفْظُہُمَا﴾ ’’ان کی حفاظت اسے کچھ بھی دشوار نہیں ۔‘‘ یعنی زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں میں ہے ان سب کی حفاظت اسے کچھ دشوار نہیں ۔ ’’یَؤُدُہٗ‘‘ کی تفسیر خود علامہ نے ’’بُثَقِّلُہُ‘‘ (بوجھل بنانا، بھاری بنانا، زیر بار کرنا، تھکا دینا، اور بوجھ تلے دبا دینا) اور ’’یُکْرِثُہُ‘‘ (مشقت میں ڈالنا، گراں بار کرنا) سے کی ہے اور یہ ’’اٰدَہُ الْاَمْرُ‘‘ (مہموز
Flag Counter