سوائے رب تعالیٰ کے کسی اور پر بولنا ہرگز جائز نہیں ، اسی بنا پر لفظ ’’احد‘‘ یہ (توحید وحدانیت اور یکتائی کے معنی کو ادا کرنے میں ) ’’واحد‘‘ سے زیادہ بلیغ ہے۔
الصمد کی تفسیر:
اس کے بعد ’’اللّٰہ الصمد‘‘ ارشاد ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ الصمد کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’الصمد اس ذات کو کہتے ہیں جو ایسا سردار ہو جو اپنی سرداری میں کامل ہو، ایسا شریف و باعزت ہو، جو اپنی عزت (وعفت) اور شرافت میں کامل ہو، ایسا عظیم ہو جو اپنی عظمت میں کامل ہو، ایسا حلیم و بردبار ہو جو اپنی بردباری میں کامل ہو، ایسا غنی اور بے پروا ہو کہ اپنے غنا اور بے پرواہی میں کامل ہو۔ ایسا زبردست اور جبار ہو جو اپنے جبروت اور اپنی عظمت، طاقت، قدرت اور زور میں کامل ہو، ایسا صاحبِ علم (علیم) ہو جو اپنے علیم میں کامل ہو، ایسا حکم ہو جو اپنی حکمتوں میں کامل ہو اور یہی وہ ذات ہوگی جو شرافت و بزرگی اور سیادت و بڑائی کی تمام اقسام میں کامل ہوگی، اور وہ اللہ بزرگ و برتر ہے جس کی یہ صفات ہیں جو اس کے سوا کسی اور کو زیبا نہیں جس کا نہ کوئی ہم سر ہے اور نہ مثیل و نظیر۔‘‘ [1]
’’الصمد‘‘ کی ایک دوسری تفسیر:
صمد کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ الصمد اس (ٹھوس چیز) کو کہتے ہیں جس میں (یعنی جس کے اندر) کوئی کھوکھلا حصہ نہ ہو، اور صمد اس ذات والا صفات کو کہتے ہیں جس کی طرف ساری مخلوق قصد کرتی ہو اور وہ اپنی تمام حاجات و ضروریات اور اہم ترین امور میں اس کی طرف رجوع کرتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے لیے ’’احدیت‘‘ کا اثبات مشارکت و مماثلت کی نفی کو متضمن ہے۔ جب کہ ’’صمدیت‘‘ کا رب تعالیٰ کے لیے گزشتہ تمام مذکورہ معانی سمیت اثبات، اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کی تمام تفصیلات کے اثبات کو متضمن ہے، اور یہی ’’توحیدِ اثبات‘‘ ہے۔ (جو توحید کی پہلی قسم ہے)۔
توحید کی دوسری قسم ’’توحید تنزیہ‘‘ کا بیان:
رہ گئی توحید کی دوسری قسم جو توحید تنزیہ ہے، اسے رب تعالیٰ کے اس قول: ﴿لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ سے (تفصیلاً) لیا گیا ہے۔ جیساکہ اس کو ’’اللّٰہ احد‘‘ سے اجمالاً لیا گیا ہے۔ یعنی نہ تو خود اس سے کوئی شے پھوٹ کر نکلی ہے (جس کو احد کہا جا سکے یعنی نہ تو وہ
|