وضاحت و بلاغت میں اور نصیحت و خیر خواہی میں بدرجہ اتم اور دوسروں کے کلام میں جو عیوب و آفات پائی جاتی ہیں ان سے از حد دور (اس لیے) ہے (کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ہر عیب سے پاک ہے اور پیغمبر اصحابِ سلامتی ہیں اور ان دونوں باتوں کی وضاحت ذیل میں آ جاتی ہے)۔
لفظِ ’’سبحان‘‘ کی حرفی و نحوی تحقیق اور معنوی تشریح:
’’سبحان‘‘ اسم مصدر [1] ہے اور یہ اس ’’تسبیح‘‘ (جو بابِ تفعیل کا مصدر ہے) سے مشتق ہے جس کا معنی تنزیہ (پاکی بیان کرنا) اور برائی سے دور کرنا ہے اور اس کی اصل (یعنی اس کے ثلاثی مجرد کا مادہ) وہ لفظ ’’سَبْحٌ‘‘ سے جس کا معنی سرعت، تیزی (سرپٹ دوڑنا، روانی، آزادی، چھوٹ اور دوڑ) اور دور کرنا ہے، اسی معنی میں اس گھوڑے کو ’’فَرَسٌ سَبُوْحٌ‘‘ کہا جاتا ہے جو سرپٹ دوڑتا ہو۔
’’رب العزۃ‘‘ کی نحوی ترکیب:
لفظِ رب کی ’’عزت‘‘ کی طرف اضافت موصوف کی اپنی صفت کی طرف اضافت کی قبیل سے ہے اور یہ لفظ ماقبل میں مذکور (ربک میں ) ’’رب‘‘ سے بدل (الکل من الکل) ہے۔
اس آیت میں رب تعالیٰ اپنی ذات کی مشرکوں کی ان تمام باتوں سے پاکی اور براء ت بیان کر رہے ہیں جو وہ رب تعالیٰ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اس کی تو ایک بیوی بھی ہے اور اس کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوتی ہے، اور اس کے ساتھ ہی رب تعالیٰ اس آیت میں اپنی ذات کو ہر قسم کے نقص اور عیب سے بھی منزہ اور پاک قرار دے رہے ہیں ۔
پیغمبروں کا ہر قول و فعل ہر قسم کے عیب سے سلامت ہے:
اپنی پاکی بیان کرنے کے بعد اپنے پیغمبروں پر سلامتی بھیجنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسے رب تعالیٰ کی ذات کو نقص اور عیب کے ہر قسم کے شائبہ سے بری اور منزہ قرار دینا واجب ہے۔ ایسے ہی اس کے پیغمبروں کے تمام اقوال و افعال کے بھی ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک اور سلامت و محفوظ ہونے کا اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ اس طرح ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا بھی واجب ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کذب بیانی سے پاک ہیں ، اس کے ساتھ شرک کے مرتکب نہیں ، اپنی امتوں کے ساتھ دھوکا دہی سے کام نہیں لیتے اور رب تعالیٰ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہیں کرتے۔
|