کا رسول زیادہ جانتے ہیں ۔‘‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بار بار یہی سوال کیا تو انہوں نے عرض کیا: ’’آیت الکرسی‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرطِ مسرت سے) ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا: ’’اے ابو المنذر! (یہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) تمہیں یہ علم مبارک ہو۔‘‘ [1]
مسند احمد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! بے شک اس آیت کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں (اور) یہ آیت (ان ہونٹوں اور زبان سے) رب ذوالجلال کے عرش کے پائے کے پاس اس کی بزرگی بیان کرتی ہے۔‘‘ [2]
آیت الکرسی کی عظمت کی وجہ کا بیان:
(آیت الکرسی کا اس قدر عظیم ہونا) کوئی (قابلِ) تعجب نہیں ، کیوں کہ یہ آیت (بھی سورۂ اخلاص کی طرح) رب تعالیٰ کے ان اسماء و صفات کے تذکرے پر مشتمل ہے جن پر کوئی دوسری آیت مشتمل نہیں ۔ اس آیت میں رب تعالیٰ نے اپنی ذاتِ بابرکات کی بابت اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ اپنی الٰہیت میں تنہا اور یکتا ہے کہ (جس کے ہوتے ہوئے) عبادت کی ہر قسم اور صورت صرف اس کی ذات کے لیے ہی ہے۔
آیت الکرسی میں مذکورہ خصائص الٰہی اور صفاتِ کمالیہ کا تفصیلی بیان:
پھر پہلی توحید کو ذکر کرنے کے بعد اس کی شہادت میں خصائص اور صفاتِ کاملہ کو ذکر کیا۔
پہلی شہادت: رب تعالیٰ ’’زندہ‘‘ ہے:
چناں چہ بیان فرمایا کہ اللہ وہ زندہ ذات ہے جس کو کامل حیات حاصل ہے۔ کیوں کہ حیات رب تعالیٰ کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ اس کی حیات ازلی اور ابدی ہے (کہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی)، اور اس کی حیات کا کمال اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے لیے تمام صفاتِ ذاتیہ جیسے عزت، قدرت، علم، حکمت، سمع، بصر، ارادہ اور مشیت وغیرہ کا کمال ثابت ہو، کیوں کہ ان میں سے کسی بھی چیز کا تخلف اس کی حیات میں نقص کی وجہ سے ہوگا۔ چناں چہ رب تعالیٰ کی زندہ ذات کے لیے ثابت و لازم تمام صفات کا کمال اس کی حیات کے کمال کے تابع ہے۔
دوسري شہادت: رب تعالیٰ ’’قیوم‘‘ ہے:
پھر اس کے ساتھ رب تعالیٰ نے اپنا دوسرا نام ’’قیوم‘‘ ذکر کیا جس کا معنی ہے وہ ذات جو خود
|