الفاء، اجوف وادی ازباب نصر ینصر) سے ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی چیز آدمی کو بوجھل بنا دے، تھکا دے اور بوجھ کی وجہ سے جھکا دے۔
رب تعالیٰ کے دو جلیل القدر اوصاف:
اس کے بعد آیت الکرسی کے اختتام پر رب تعالیٰ نے اپنی دو جلیل القدر اور عظیم الشان صفات کو ذکر کیا۔ چناں چہ فرمایا:
﴿وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الَعَظِیْمُ﴾ ’’وہ بڑا عالی مرتبہ اور جلیل القدر ہے۔‘‘
العلی: …یہ اس ذات کو کہتے ہیں جس کو ہر اعتبار سے علوِ مطلق حاصل ہو، چناں چہ:
٭ اسے ’’علوِ ذات‘‘ بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی تمام مخلوقات سے اوپر ہے اور اپنے عرش پر مستوی ہے (اور خود اس سے اوپر کوئی شے نہیں )۔
٭ اسے ’’علوِ قدر‘‘ بھی حاصل ہے، کیوں کہ اسے تمام صفات میں کمال حاصل ہے اور اسے اس صفت میں بلند ترین اور اعلیٰ ترین رتبہ حاصل ہے۔
٭ اسے ’’علوِ قہر‘‘ بھی حاصل ہے، کیوں کہ وہ اپنی تمام مخلوقات پر غالب و قاہر ہے اور دانا اور خبردار ہے۔
العظیم:… اس کا مطلب وہ ذات جس کو ایسی عظمت حاصل ہو کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی دوسری شے عظیم نہ ہو اور نہ اس سے بزرگ اور بڑی ہو۔ بے شک انبیاء کرام، فرشتوں اور رب کے برگزیدہ بندوں کے دلوں میں اس کی کامل تعظیم اور بزرگی ہے۔
تنبیہ: پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ رب تعالیٰ کے اسماء و صفات میں نفی اور اثبات کے معافی پائے جانے کو بیان کرنے کے بعد علامہ رحمہ اللہ نے اس کی دلیل میں کتاب و سنت کی نصوص کو لانا شروع کیا۔ چناں چہ ان دلائل کا آغاز سورۂ اخلاص اور آیت الکرسی سے کیا کہ ان جملہ صفات میں جنہیں رب تعالیٰ نے خود اپنی ذاتِ بابرکات کے بارے میں بیان فرمایا ہے، وہ صفات بھی داخل ہیں جنہیں رب تعالیٰ نے سورۂ اخلاص اور آیت الکرسی میں ذکر کیا، جن کا تفصیلی بیان اوپر مذکور ہو چکا۔ [1]
|