یعنی اس کتاب میں جو کچھ ان کے لیے لکھا ہے وہ انہیں ملتا رہے گا۔
رب تعالیٰ کے محاسبہ کی تفسیر:
علامہ رحمہ اللہ کے قول ’’ویحاسب اللّٰه الخلائق‘‘ میں محاسبہ سے مراد بندوں کو ان اچھے یا برے اعمال کا یاد دلانا اور بتلانا ہے جو انہوں نے آگے بھیج ہوئے ہیں جن کو اللہ نے تو شمار کر رکھا ہے مگر بندے ان کو بھلائے بیٹھے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام: ۱۰۸)
’’پھر ان کو پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے، تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ ’’جس سے حساب میں چھان بین کی گئی اسے عذاب ملے گا۔‘‘ اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کیا رب تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا:
﴿فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیْرًا﴾ (الانشقاق: ۸)
’’اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے مراد حساب پیش کرنا ہے البتہ جس سے حساب کی چھان بین شروع ہوگئی وہ ہلاک ہو جائے گا۔‘‘[1]
بندے سے تنہائی میں حساب لینے کی تفسیر:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (روزِ قیامت) رب تعالیٰ اپنے مومن بندے کو اپنے قریب کریں گے اور اور اس پر اپنا بازو رکھ دیں گے اور اپنے اور اس کے درمیان اس کا حساب کریں گے اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائیں گے اور ارشاد فرمائیں گے، ’’کیا تم نے فلاں فلاں دن یہ یہ نہ کیا؟ اور کیا فلاں دن یہ نہ کیا؟ یہاں تک کہ جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور یقین کر لے گا کہ وہ ہلاک ہو گیا تو رب تعالیٰ اسے ارشاد فرمائیں گے ’’میں نے دنیا میں تمہارے ان گناہوں کو چھپایا تو آج میں تمہارے ان گناہوں کو تمہیں بخش دیتا ہوں ۔‘‘[2]
روز قیامت کفار کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی:
کفار کے پاس نیکی نہ ہونے کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|