ہے تو وہ اس حکم کی تعمیل کی طرف لپکیں گے۔
لوگوں کے تنازعات ختم کرنے میں انصاف سے کام لیجئے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اقسطوا﴾ یہ (جمع مذکر حاضر عام امر کا صیغہ ہے اور (یہ بابِ اِفعال سے ہے) اس کا مصدر ’’الاِقساط‘‘ ہے (جس کا معنی ہے لوگوں کے درمیان انصاف کرنا۔ جب کہ آیت میں مراد) مومنین کی دو جماعتوں میں تنازعہ ہو جانے کی صورت میں ان کے درمیان عدل کا فیصلہ کرنا اور یہ (ثلاثی مجرد کے فعل) قَسَطَ (یَقْسِطُ قَسْطًا و قُسُوْطًا) سے ہے جس کا معنی ہے: نا انصافی کرنا اور ظلم کرنا۔ پس ’’الاقساط‘‘ میں ہمزہ ’’سلب‘‘ کے لیے ہوگا۔ [1]
(اس آیت میں رب تعالیٰ کے ایک اسم کا بھی اثبات ہوا کہ) رب تعالیٰ کا ایک نام ’’مُقْسِطٌ‘‘ بھی ہے۔ اس آیت میں عدل کی ترغیب بھی ہے اور اس کے مقام و مرتبہ کا بیان بھی، اور یہ کہ عدل کرنا رب اللہ کی محبت کا سبب ہے۔
عہدوں کی پاسداری اہلِ ایمان کا شیوہ ہے:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارا کسی کے ساتھ عہد ہو (تو اس عہد کو ضرور نبا ہو) جیسے وہ لوگ جن کے ساتھ تم لوگوں نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا تھا تو جتنی مدت تک وہ لوگ تمہارے ساتھ اس عہد پر قائم ہیں اتنی مدت تک تم بھی ان کے ساتھ عہد پر پکے رہو۔ اس معنی کے لحاظ سے ’’آیت‘‘ میں ’’فما‘‘ کے اندر ’’ما‘‘ مصدریہ ظرفیہ ہوگی (اور ما مصدر یہ فعل پر داخل ہو کر اسے مصدر کے معنی میں کر دیتی ہے اور چونکہ یہ مدت کا بیان ہے اس لیے یہ ظرفیہ ہوگی اور تقدیری عبارت یوں ہوگی، ﴿فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ﴾ (کما لا یخفی علی ذوی العلم والفہم)۔ )
نقصِ عہد سے بچنا تقویٰ ہے:
اس کے بعد اس امر کی علت بیان فرمائی، چناں چہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ﴾ یعنی رب تعالیٰ ان لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں جو اس سے ہر چیز کی بابت ڈرتے ہیں ، جن میں سے
|