شرح:…
رب تعالیٰ نمازی کے سامنے ہوتے ہیں :
حدیث نمبر ۱۲ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رب تعالیٰ نمازی کے سامنے ہوتے ہیں ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی لطیف دلیل:
علامہ رحمہ اللہ ’’عقیدۂ حمویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہ حدیث حق ہے اور اپنے ظاہر پر ہے۔ کہ رب تعالیٰ عرش کے اوپر ہیں اور نمازی کے سامنے ہیں بلکہ یہ وصف تو مخلوق کے لیے بھی ثابت ہے کہ اگر انسان آسمان، سورج چاند ستاروں سے باتیں کرے تو یہ سب چیزیں اس سے بلند بھی ہوتی ہیں اور اس کے سامنے بھی ہوتی ہیں ۔‘‘
رب تعالیٰ کے چند اسمائے مبارکہ:
حدیث نمبر ۱۳ رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اول، آخر، ظاہر، باطن کے اثبات کو متضمن ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وہ تفسیر خود فرما دی ہے کہ کسی کے لیے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ کے ’’اسماء اور ان کے معانی‘‘ مدلولہ کو سب مخلوق سے بڑھ کر جاننے والے ہیں لہٰذا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ہوتے ہوئے) کسی دوسرے کے قول کی طرف التفات کرنا خواہ وہ کوئی ہو، ہرگز درست نہیں ۔
بارگاہِ الٰہی میں دست سوال دراز کرنے کا ادب:
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رب تعالیٰ سے سوال کرنے کے ادب کی تعلیم بھی دی ہے کہ پہلے ہم اس کی حمد وثنا بیان کریں ، اس کی اس ربوبیت کو بیان کریں جو سب چیزوں کو عام ہے اور ہر شی کا انتظام کر رہی ہے، پھر اس کی اس ربوبیت خاصہ کو بیان کریں جو بندوں کی ہدایت اور نور پر مشتمل ان تین کتابوں کے نازل فرمانے میں کارفرما رہی۔ پھر رب تعالیٰ سے اپنے نفس اور ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگیں اور اس کی حفاظت میں آئیں ۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ سے قرض سے سبکدوش ہونے کی دعا مانگی اور سوال کیا کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فقرو احتیاج سے غنی اور بے پروا کر دے۔
|