بن جھم اور اس کے پیروکار جبریہ کہتے ہیں کہ: ’’بندے کا فعل رب کی قدرت کے تحت ہے ناکہ بندے کی، اسی طرح اشعریہ اور ان کے متبعین کہتے ہیں کہ مقدور (یعنی بندے کے فعل) میں رب تعالیٰ کی قدرت مؤثر ہے ناکہ بندے کی قدرت۔ اور جمہور معتزلہ جو قدریہ ہیں یعنی تقدیر کی نفی کرتے ہیں ، ان کا کہنا یہ ہے کہ رب تعالیٰ بندے کے مقدور کی عین پر (یعنی بندے کے فعل کی ذات پر) قدرت نہیں رکھتا البتہ اس بات میں ان کا اختلاف ہے کہ آیا رب تعالیٰ کو بندے کے مقدور کی مثل پر قدرت ہے یا نہیں ۔ چناں چہ ابوعلی اور ابوہاشم بصری علماء نے اس قدرت کو ثابت کیا ہے جب کہ کعبی اور اس کے متبعین بغدادیوں نے اس کی نفی کی ہے۔
جب کہ اہل حق اس باب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ افعالِ عباد ہی ہیں جن کی بنا پر وہ رب تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار یا سرکش و نافرمان کہلاتے ہیں ، انہیں رب تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، یہ اللہ کی مخلوق ہیں اور سب مخلوقات کو پیدا کرنے والا ایک اکیلا اللہ ہے، اس کام میں کوئی دوسرا اس کے ساتھ شریک نہیں لہٰذا مخلوقات کا رب تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا خالق نہیں ۔
پس جبریہ نے تو تقدیر کے اثبات میں غلو سے کام لیا اور بندے کے فعل کی سرے سے نفی کر دی جب کہ معتزلہ نے تقدیر کا انکار کیا اور بندوں کو رب تعالیٰ کے ساتھ خالق ٹھہرایا، اسی لیے انہیں اس امت کا مجوس کہا جاتا ہے۔ رب تعالیٰ نے مومنین اہل سنت کو ان سب اختلافی باتوں میں راہِ حق و صواب کی ہدایت نصیب فرمائی۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلاتا ہے۔ اہل سنت نے کہا کہ: ’’بندے اپنے افعال کے فاعل ہیں اور رب تعالیٰ ان کا بھی اور ان کے افعال کا بھی خالق ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: ۹۶)
’’حالانکہ تم کو اور جو تم کرتے ہو (یعنی بت بناتے ہو) اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔‘‘
ہم نے شیخ کی یہ پوری عبارت اس لیے نقل کی کہ تقدیر اور افعالِ عباد کی بحث میں متکلمین کے مذاہب کو بیان کرنے میں یہ نہایت عمدہ اور مختصر ترین عبادت ہے۔
رب تعالیٰ کی وعید میں اعتدال:
’’وفی باب وعید اللّٰه‘‘ سے علامہ رحمہ اللہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ اہل سنت رب تعالیٰ کی وعید کے باب میں بھی ان افراط پرستوں کے درمیان راہ اعتدال پر ہیں ۔ چناں چہ ان کے ایک طرف مرجیئہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’’ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا (لہٰذا جو چاہو
|