بخلاف معتزلہ کے جو رب تعالیٰ کی اس صفت کی نفی کرتے ہیں (اور اس نفی کرنے میں ان کی عبارات مضطرب ہیں ) چناں چہ کوئی تو یہ کہتا ہے کہ: ’’وہ بالذات عالم اور بالذات قادر ہے۔‘‘ (یعنی وہ اپنی ذات سے عالم و قادر ہے ناکہ علم و قدرت اس کی وہ صفات ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور یہ رب تعالیٰ کی صفت علم و قدرت کا نہایت دقیق انکار ہے۔ فافہم۔) اور کوئی رب تعالیٰ کے اسماء کی سلبی معانی کے ساتھ تفسیر کرتا ہے۔ چناں چہ بقول اس کے ’’علیم‘‘ کا معنی ہے، ’’وہ جاہل نہیں ‘‘ اور ’’قدیر‘‘ کا معنی ہے ’’وہ عاجز اور بے بس نہیں ۔‘‘
مگر یہ آیات (اور ان جیسی دوسری آیات) ان پر (اور ان کے فاسد اقوال و اعتقادات پر) حجت ہیں ۔ ان آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اس کے علم نے ہر مادہ کا اور اس کے جننے کا احاطہ کر رکھا ہے کہ وہ کب جنے گی اور کیسے جنے گی۔ جیسا کہ اس نے اپنی قدرت کے عموم اور ہر ممکن شے کے ساتھ اس کے تعلق کو بیان فرمایا ہے اور بتلایا ہے کہ اس کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔
اس باب میں سب سے عمدہ کلام امام عبدالعزیز مکی کا ہے۔ چناں چہ وہ اپنی کتاب ’’الحیدۃ‘‘ میں ’’مسئلہ علم‘‘ پر مناظرہ کرتے ہوئے بشر مریسی معتزلی کو کہتے ہیں : ’’رب ذوالجلال نے اپنی کتاب میں کسی مقرب فرشتے نبی مرسل یا متقی نیکوکار مومن کی تعریف اس سے جہل کی نفی کر کے بیان نہیں کی تاکہ (اس سے جہل کی نفی کر کے) اس کے لیے صفتِ علم کو ثابت کرے، رب تعالیٰ نے تو ان کے لیے علم کو ثابت کر کے ان کی مدح بیان کی ہے اور یوں ان سے جہل کی (بھی) نفی کر دی۔ پس جو بھی (کسی کے لیے) علم کو ثابت کرے گا وہ (اس سے خود بخود) جہل کی نفی بھی کر رہا ہوگا مگر جو جہل کی نفی کر رہا ہو اور علم کو ثابت کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘
علم الٰہی کے اثبات پر دلائل عقلیہ کا بیان:
پہلی دلیل: رب تعالیٰ کے لیے علم ثابت ہونے کی دلیل عقلی یہ ہے کہ جہل کے ساتھ رب تعالیٰ کا اشیاء کو ایجاد اور پیدا کرنا متحیل ہے کیوں کہ اشیاء کا ایجاد کرنا رب تعالیٰ کے ارادہ سے ہوگا، اور ارادہ ’’مراد‘‘ (جس کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے) کے علم کو مستلزم ہے۔ اسی لیے فرمایا:
﴿اَ لَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیْرُ﴾ (الملک: ۱۴)
’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
|