Maktaba Wahhabi

86 - 238
٭ (مبتدا اور خبر دونوں کا معرفہ ہونا) اور ان دونوں کے درمیان ضمیر فعل کا لانا اختصاص کا فائدہ دیتا ہے کہ بندوں تک رزق کا پہنچانا صرف رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہی خاص ہے۔ مذکورہ آیت کی ایک اور قراء ت کا بیان: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ آیت ان الفاظ کے ساتھ پڑھائی: ((انّی ان الرزاق ذوالقوۃ المتین۔)) ’’بے شک میں ہی روزی دینے والا، زور آور اور مضبوط ہوں ۔‘‘ [1] (کہ اس قراء ت میں لفظ ’’اللہ‘‘ کی بجائے واحد متکلم کی ضمیر لائی گئی ہے اور اس کے بعد ضمیر فعل بھی اسی کے مطابق ’’انا‘‘ واحد متکلم کی لائی گئی ہے۔ اس قراء ت میں بھی اختصاص کی گزشتہ مذکور جملہ وجوہ موجود ہیں ۔ فقط واللہ اعلم۔ ) ’’ذوالقوۃ‘‘ کی تشریح: ’’ذو‘‘[2] یہ صاحب کے معنی میں ہے، یعنی ’’قوت والا‘‘، اور یہ رب تعالیٰ کے اسم ’’القوی‘‘ کے معنی میں ہے۔ البتہ اس میں معنوی بلاغت زیادہ ہے (جس کا قدرے بیان حاشیہ میں کر دیا گیا ہے کہ ایک تو یہ ما قبل کی صفت بن کر آتا ہے، دوسرے یہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے جو عموماً اسم جنس ہوتا ہے اور اسم ظاہر ضمیر سے ابلغ ہے اور اسم جنس میں مفہوم کلی ملحوظ ہوتا ہے جو وسعت اور عموم و شمول پر دلالت کرتا ہے، تیسرے صفت کا معنی اختصاص پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ) پس یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رب تعالیٰ کی (بندوں کو روزی پہنچانے کی) قوت (انہیں روزی پہنچاتے پہنچاتے) گھٹتی نہیں رہتی کہ جس سے رب تعالیٰ کمزور پڑ جائے اور ڈھیلا اور سست ہو جائے۔
Flag Counter